Wednesday 26 February 2014

Taliban ready for military operation consequences: TTP spokesman

Taliban ready for military operation consequences: TTP spokesman  
 
PESHAWAR: Tehrik-i-Taliban Pakistan (TTP) spokesman Shahidullah Shahid has said that Taliban were ready for the consequences of military operation, Geo News reported.
In a statement, TTP spokesman said military operation will incur less loss to Taliban and that the rulers must fulfill their will for compiling the statistics.
Earlier, in the statement, Shahidullah Shahid had confirmed the killing of top Taliban commander Asmatullah Shaheen.
The TTP spokesman said the Taliban suffered an irreparable loss due to the death of Asmatullah Shaheen. He alleged intelligence agencies for assassination of Shaheen.
Posted On Wednesday, February 26, 2014   …جویریہ صدیق… بچوں کی نگہداشت ایک ایسا عمل ہے جوکہ اگر موثر طریقے سے انجام دیا جائے تو ہی ہم ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔کسی بھی بچے کے صحت مند ہونے کی ضمانت ایک صحت مند ماں ہی دے سکتی ہے۔حمل سے لے کر زچگی تک ماں کے آرام اور غذا کا مکمل خیال رکھا جائے تب ہی وہ ایک صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے۔ پاکستان میں یہ شرح بہت کم ہے کہ دوران حمل زچہ اور بچہ کی صحت کا خیال رکھا جائے اور ان کا طبی معائنہ متواتر کروایا جائے اسی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 25 سے 30ہزار خواتین زچگی میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں اور ایک ہزار میں سے 48بچے پیدائش کے پہلے ماہ میں ہی فوت ہوجاتے ہیں اور 40اعشاریہ 4فیصد بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں۔
بچے کی ولادت کے بعدضروری ہے کہ پورا کنبہ زچہ اور بچہ کا خیال کرے، ان کے آرام اورغذا کا مکمل خیال کرے۔ بچے کے لیے پہلی مکمل غذا ماں کا دودھ ہے۔ اگر ماں بچے کو اپنا دودھ پلائے تو اس کے خدوخال بھی جلد معمول پر آسکتے ہیں اور اس کو چھاتی کا سرطان ہونے کا خدشہ بھی بالکل کم رہ جائے گا۔ ماں کے دودھ سے بچے میں قوت معدافت بڑھتی ہے۔ ماں کے دودھ میں پانی،چکنائی کی مناسب مقدار موجود ہے جو بچوں میں دست، کھانسی، نمونیا، پیٹ کے درد اور بدہضمی کے امکان کو کم کرتا ہے۔ ماں کا دودھ سے گھر کا بجٹ بھی کم رہتا ہے اور قدرتی طور پر دوسرے حمل میں مناسب وقفہ بھی آجاتا ہے۔ بچوں کو دو سال تک دودھ پلانا مفید ہے۔ اس لیے مائیں فیڈر کو مکمل نظر انداز کریں اور بچوں کو صرف اپنا دودھ دیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ماوٴں کو چاہیے کہ وہ اپنی غذا، صحت اور صفائی کا خیال رکھیں اور بچوں کوبھی صاف ستھرا رکھیں۔ ماوٴں کی غذا میں پھل، سبزیاں، دودھ، پانی، انڈے، دالیں اور مچھلی شامل ہوں۔ وہ روزانہ تین وقت کا کھانا کھائیں، ہلکی چہل قدمی کریں، اپنا وزن کنٹرول میں رکھیں ،گوشت اور بازار کے کھانوں سے پرہیز کریں اور جیسے جیسے بچہ کی عمر بڑھے اس کو بھی ماں کے دودھ کے ساتھ اضافی غذا شروع کروادیں جن میں سوجی، ساگودانہ، کیلا، چاولوں کی کھیر، ابلے ہوئے آلو وغیرہ شامل ہیں۔ ڈبے کے دودھ یا غذاوٴں سے مکمل اجتناب کریں۔
غذا کے ساتھ بچوں کو صاف بھی رکھا جائے ان کو نیم گرم پانی سے روز غسل دیا جائے، ان کے سر، چہرے، کانوں کو احتیاط کے ساتھ صاف کیا جائے اور تولیے سے اچھی طرح خشک کرکے موسم کے مطابق کپڑے پہنائے جائیں اورکچھ دیر ان کو ماں ان کوا پنے قریب ہی گرم کپڑے میں ڈھانپ کر رکھے تاکہ نہانے کے بعد بچوں کو ٹھنڈ نہ لگے۔
بچوں کی صحت کے لیے حفاظتی ٹیکوں کا کورس بھی لازم ہے جوکہ بچوں کو پولیو، خناق، تشنج، ٹی بی، کالی کھانسی، خسرہ، نمونیا اور ہیپا ٹائٹس سے بچاتا ہے۔ بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے کے لیے اور انہیں معذوری سے بچانے کے لیے یہ ٹیکے لگوانا انتہانی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ حاملہ ماوٴں کو بھی حفاظتی ٹیکہ جات کا کورس کروانا لازم ہے، اس سے زچہ و بچہ کی شرح اموات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
یہ سب کام تب ہی انجام پا سکتے ہیں جب ماں صحت مند ہوگی اس لیے حمل سے لے کر زچگی تک اور اس کے بعد کے چھ مہنے تک اہل خانہ کو زچہ اور بچہ دونوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ ان کی غذا،صحت، صفائی، ڈاکٹر سے مکمل معائنہ ان کے آرام اور ان کو ہر سہولت مہیا کرنا اہل خانہ کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں مردوں کا کردار بہت اہم ہے، ان کے تعاون سے ہی خواتین صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔ - See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9608#sthash.2UGUjOdZ.dpuf
Posted On Wednesday, February 26, 2014   …جویریہ صدیق… بچوں کی نگہداشت ایک ایسا عمل ہے جوکہ اگر موثر طریقے سے انجام دیا جائے تو ہی ہم ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔کسی بھی بچے کے صحت مند ہونے کی ضمانت ایک صحت مند ماں ہی دے سکتی ہے۔حمل سے لے کر زچگی تک ماں کے آرام اور غذا کا مکمل خیال رکھا جائے تب ہی وہ ایک صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے۔ پاکستان میں یہ شرح بہت کم ہے کہ دوران حمل زچہ اور بچہ کی صحت کا خیال رکھا جائے اور ان کا طبی معائنہ متواتر کروایا جائے اسی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 25 سے 30ہزار خواتین زچگی میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں اور ایک ہزار میں سے 48بچے پیدائش کے پہلے ماہ میں ہی فوت ہوجاتے ہیں اور 40اعشاریہ 4فیصد بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں۔
بچے کی ولادت کے بعدضروری ہے کہ پورا کنبہ زچہ اور بچہ کا خیال کرے، ان کے آرام اورغذا کا مکمل خیال کرے۔ بچے کے لیے پہلی مکمل غذا ماں کا دودھ ہے۔ اگر ماں بچے کو اپنا دودھ پلائے تو اس کے خدوخال بھی جلد معمول پر آسکتے ہیں اور اس کو چھاتی کا سرطان ہونے کا خدشہ بھی بالکل کم رہ جائے گا۔ ماں کے دودھ سے بچے میں قوت معدافت بڑھتی ہے۔ ماں کے دودھ میں پانی،چکنائی کی مناسب مقدار موجود ہے جو بچوں میں دست، کھانسی، نمونیا، پیٹ کے درد اور بدہضمی کے امکان کو کم کرتا ہے۔ ماں کا دودھ سے گھر کا بجٹ بھی کم رہتا ہے اور قدرتی طور پر دوسرے حمل میں مناسب وقفہ بھی آجاتا ہے۔ بچوں کو دو سال تک دودھ پلانا مفید ہے۔ اس لیے مائیں فیڈر کو مکمل نظر انداز کریں اور بچوں کو صرف اپنا دودھ دیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ماوٴں کو چاہیے کہ وہ اپنی غذا، صحت اور صفائی کا خیال رکھیں اور بچوں کوبھی صاف ستھرا رکھیں۔ ماوٴں کی غذا میں پھل، سبزیاں، دودھ، پانی، انڈے، دالیں اور مچھلی شامل ہوں۔ وہ روزانہ تین وقت کا کھانا کھائیں، ہلکی چہل قدمی کریں، اپنا وزن کنٹرول میں رکھیں ،گوشت اور بازار کے کھانوں سے پرہیز کریں اور جیسے جیسے بچہ کی عمر بڑھے اس کو بھی ماں کے دودھ کے ساتھ اضافی غذا شروع کروادیں جن میں سوجی، ساگودانہ، کیلا، چاولوں کی کھیر، ابلے ہوئے آلو وغیرہ شامل ہیں۔ ڈبے کے دودھ یا غذاوٴں سے مکمل اجتناب کریں۔
غذا کے ساتھ بچوں کو صاف بھی رکھا جائے ان کو نیم گرم پانی سے روز غسل دیا جائے، ان کے سر، چہرے، کانوں کو احتیاط کے ساتھ صاف کیا جائے اور تولیے سے اچھی طرح خشک کرکے موسم کے مطابق کپڑے پہنائے جائیں اورکچھ دیر ان کو ماں ان کوا پنے قریب ہی گرم کپڑے میں ڈھانپ کر رکھے تاکہ نہانے کے بعد بچوں کو ٹھنڈ نہ لگے۔
بچوں کی صحت کے لیے حفاظتی ٹیکوں کا کورس بھی لازم ہے جوکہ بچوں کو پولیو، خناق، تشنج، ٹی بی، کالی کھانسی، خسرہ، نمونیا اور ہیپا ٹائٹس سے بچاتا ہے۔ بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے کے لیے اور انہیں معذوری سے بچانے کے لیے یہ ٹیکے لگوانا انتہانی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ حاملہ ماوٴں کو بھی حفاظتی ٹیکہ جات کا کورس کروانا لازم ہے، اس سے زچہ و بچہ کی شرح اموات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
یہ سب کام تب ہی انجام پا سکتے ہیں جب ماں صحت مند ہوگی اس لیے حمل سے لے کر زچگی تک اور اس کے بعد کے چھ مہنے تک اہل خانہ کو زچہ اور بچہ دونوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ ان کی غذا،صحت، صفائی، ڈاکٹر سے مکمل معائنہ ان کے آرام اور ان کو ہر سہولت مہیا کرنا اہل خانہ کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں مردوں کا کردار بہت اہم ہے، ان کے تعاون سے ہی خواتین صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔ - See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9608#sthash.2UGUjOdZ.dpuf
Posted On Wednesday, February 26, 2014   …جویریہ صدیق… بچوں کی نگہداشت ایک ایسا عمل ہے جوکہ اگر موثر طریقے سے انجام دیا جائے تو ہی ہم ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔کسی بھی بچے کے صحت مند ہونے کی ضمانت ایک صحت مند ماں ہی دے سکتی ہے۔حمل سے لے کر زچگی تک ماں کے آرام اور غذا کا مکمل خیال رکھا جائے تب ہی وہ ایک صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے۔ پاکستان میں یہ شرح بہت کم ہے کہ دوران حمل زچہ اور بچہ کی صحت کا خیال رکھا جائے اور ان کا طبی معائنہ متواتر کروایا جائے اسی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 25 سے 30ہزار خواتین زچگی میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں اور ایک ہزار میں سے 48بچے پیدائش کے پہلے ماہ میں ہی فوت ہوجاتے ہیں اور 40اعشاریہ 4فیصد بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں۔
بچے کی ولادت کے بعدضروری ہے کہ پورا کنبہ زچہ اور بچہ کا خیال کرے، ان کے آرام اورغذا کا مکمل خیال کرے۔ بچے کے لیے پہلی مکمل غذا ماں کا دودھ ہے۔ اگر ماں بچے کو اپنا دودھ پلائے تو اس کے خدوخال بھی جلد معمول پر آسکتے ہیں اور اس کو چھاتی کا سرطان ہونے کا خدشہ بھی بالکل کم رہ جائے گا۔ ماں کے دودھ سے بچے میں قوت معدافت بڑھتی ہے۔ ماں کے دودھ میں پانی،چکنائی کی مناسب مقدار موجود ہے جو بچوں میں دست، کھانسی، نمونیا، پیٹ کے درد اور بدہضمی کے امکان کو کم کرتا ہے۔ ماں کا دودھ سے گھر کا بجٹ بھی کم رہتا ہے اور قدرتی طور پر دوسرے حمل میں مناسب وقفہ بھی آجاتا ہے۔ بچوں کو دو سال تک دودھ پلانا مفید ہے۔ اس لیے مائیں فیڈر کو مکمل نظر انداز کریں اور بچوں کو صرف اپنا دودھ دیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ماوٴں کو چاہیے کہ وہ اپنی غذا، صحت اور صفائی کا خیال رکھیں اور بچوں کوبھی صاف ستھرا رکھیں۔ ماوٴں کی غذا میں پھل، سبزیاں، دودھ، پانی، انڈے، دالیں اور مچھلی شامل ہوں۔ وہ روزانہ تین وقت کا کھانا کھائیں، ہلکی چہل قدمی کریں، اپنا وزن کنٹرول میں رکھیں ،گوشت اور بازار کے کھانوں سے پرہیز کریں اور جیسے جیسے بچہ کی عمر بڑھے اس کو بھی ماں کے دودھ کے ساتھ اضافی غذا شروع کروادیں جن میں سوجی، ساگودانہ، کیلا، چاولوں کی کھیر، ابلے ہوئے آلو وغیرہ شامل ہیں۔ ڈبے کے دودھ یا غذاوٴں سے مکمل اجتناب کریں۔
غذا کے ساتھ بچوں کو صاف بھی رکھا جائے ان کو نیم گرم پانی سے روز غسل دیا جائے، ان کے سر، چہرے، کانوں کو احتیاط کے ساتھ صاف کیا جائے اور تولیے سے اچھی طرح خشک کرکے موسم کے مطابق کپڑے پہنائے جائیں اورکچھ دیر ان کو ماں ان کوا پنے قریب ہی گرم کپڑے میں ڈھانپ کر رکھے تاکہ نہانے کے بعد بچوں کو ٹھنڈ نہ لگے۔
بچوں کی صحت کے لیے حفاظتی ٹیکوں کا کورس بھی لازم ہے جوکہ بچوں کو پولیو، خناق، تشنج، ٹی بی، کالی کھانسی، خسرہ، نمونیا اور ہیپا ٹائٹس سے بچاتا ہے۔ بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے کے لیے اور انہیں معذوری سے بچانے کے لیے یہ ٹیکے لگوانا انتہانی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ حاملہ ماوٴں کو بھی حفاظتی ٹیکہ جات کا کورس کروانا لازم ہے، اس سے زچہ و بچہ کی شرح اموات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
یہ سب کام تب ہی انجام پا سکتے ہیں جب ماں صحت مند ہوگی اس لیے حمل سے لے کر زچگی تک اور اس کے بعد کے چھ مہنے تک اہل خانہ کو زچہ اور بچہ دونوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ ان کی غذا،صحت، صفائی، ڈاکٹر سے مکمل معائنہ ان کے آرام اور ان کو ہر سہولت مہیا کرنا اہل خانہ کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں مردوں کا کردار بہت اہم ہے، ان کے تعاون سے ہی خواتین صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔ - See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9608#sthash.2UGUjOdZ.dpuf
Posted On Wednesday, February 26, 2014   …جویریہ صدیق… بچوں کی نگہداشت ایک ایسا عمل ہے جوکہ اگر موثر طریقے سے انجام دیا جائے تو ہی ہم ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔کسی بھی بچے کے صحت مند ہونے کی ضمانت ایک صحت مند ماں ہی دے سکتی ہے۔حمل سے لے کر زچگی تک ماں کے آرام اور غذا کا مکمل خیال رکھا جائے تب ہی وہ ایک صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے۔ پاکستان میں یہ شرح بہت کم ہے کہ دوران حمل زچہ اور بچہ کی صحت کا خیال رکھا جائے اور ان کا طبی معائنہ متواتر کروایا جائے اسی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 25 سے 30ہزار خواتین زچگی میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں اور ایک ہزار میں سے 48بچے پیدائش کے پہلے ماہ میں ہی فوت ہوجاتے ہیں اور 40اعشاریہ 4فیصد بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں۔
بچے کی ولادت کے بعدضروری ہے کہ پورا کنبہ زچہ اور بچہ کا خیال کرے، ان کے آرام اورغذا کا مکمل خیال کرے۔ بچے کے لیے پہلی مکمل غذا ماں کا دودھ ہے۔ اگر ماں بچے کو اپنا دودھ پلائے تو اس کے خدوخال بھی جلد معمول پر آسکتے ہیں اور اس کو چھاتی کا سرطان ہونے کا خدشہ بھی بالکل کم رہ جائے گا۔ ماں کے دودھ سے بچے میں قوت معدافت بڑھتی ہے۔ ماں کے دودھ میں پانی،چکنائی کی مناسب مقدار موجود ہے جو بچوں میں دست، کھانسی، نمونیا، پیٹ کے درد اور بدہضمی کے امکان کو کم کرتا ہے۔ ماں کا دودھ سے گھر کا بجٹ بھی کم رہتا ہے اور قدرتی طور پر دوسرے حمل میں مناسب وقفہ بھی آجاتا ہے۔ بچوں کو دو سال تک دودھ پلانا مفید ہے۔ اس لیے مائیں فیڈر کو مکمل نظر انداز کریں اور بچوں کو صرف اپنا دودھ دیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ماوٴں کو چاہیے کہ وہ اپنی غذا، صحت اور صفائی کا خیال رکھیں اور بچوں کوبھی صاف ستھرا رکھیں۔ ماوٴں کی غذا میں پھل، سبزیاں، دودھ، پانی، انڈے، دالیں اور مچھلی شامل ہوں۔ وہ روزانہ تین وقت کا کھانا کھائیں، ہلکی چہل قدمی کریں، اپنا وزن کنٹرول میں رکھیں ،گوشت اور بازار کے کھانوں سے پرہیز کریں اور جیسے جیسے بچہ کی عمر بڑھے اس کو بھی ماں کے دودھ کے ساتھ اضافی غذا شروع کروادیں جن میں سوجی، ساگودانہ، کیلا، چاولوں کی کھیر، ابلے ہوئے آلو وغیرہ شامل ہیں۔ ڈبے کے دودھ یا غذاوٴں سے مکمل اجتناب کریں۔
غذا کے ساتھ بچوں کو صاف بھی رکھا جائے ان کو نیم گرم پانی سے روز غسل دیا جائے، ان کے سر، چہرے، کانوں کو احتیاط کے ساتھ صاف کیا جائے اور تولیے سے اچھی طرح خشک کرکے موسم کے مطابق کپڑے پہنائے جائیں اورکچھ دیر ان کو ماں ان کوا پنے قریب ہی گرم کپڑے میں ڈھانپ کر رکھے تاکہ نہانے کے بعد بچوں کو ٹھنڈ نہ لگے۔
بچوں کی صحت کے لیے حفاظتی ٹیکوں کا کورس بھی لازم ہے جوکہ بچوں کو پولیو، خناق، تشنج، ٹی بی، کالی کھانسی، خسرہ، نمونیا اور ہیپا ٹائٹس سے بچاتا ہے۔ بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے کے لیے اور انہیں معذوری سے بچانے کے لیے یہ ٹیکے لگوانا انتہانی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ حاملہ ماوٴں کو بھی حفاظتی ٹیکہ جات کا کورس کروانا لازم ہے، اس سے زچہ و بچہ کی شرح اموات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
یہ سب کام تب ہی انجام پا سکتے ہیں جب ماں صحت مند ہوگی اس لیے حمل سے لے کر زچگی تک اور اس کے بعد کے چھ مہنے تک اہل خانہ کو زچہ اور بچہ دونوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ ان کی غذا،صحت، صفائی، ڈاکٹر سے مکمل معائنہ ان کے آرام اور ان کو ہر سہولت مہیا کرنا اہل خانہ کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں مردوں کا کردار بہت اہم ہے، ان کے تعاون سے ہی خواتین صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔ - See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9608#sthash.2UGUjOdZ.dpuf

No comments:

Post a Comment