Wednesday 26 February 2014

Afghan mission: US planning full troop pullout, says Obama

WASHINGTON:  President Barack Obama told his Afghan counterpart Hamid Karzai on Tuesday he is now planning a full US troop withdrawal, but did not rule out a deal on a post-2014 mission with the next Kabul government.
Obama told Karzai by telephone that, since the Afghan leader had refused to sign a Bilateral Security Agreement (BSA) with Washington, the Pentagon has little option but to plan for a full pullout, the White House said.
“President Obama told President Karzai that because he has demonstrated that it is unlikely that he will sign the BSA, the United States is moving forward with additional contingency planning,” the statement said.
“Specifically, President Obama has asked the Pentagon to ensure that it has adequate plans in place to accomplish an orderly withdrawal by the end of the year should the United States not keep any troops in Afghanistan after 2014.”
The White House has previously warned that Karzai’s intransigence on a deal painstakingly negotiated last year meant that it must start the complicated process of planning a full withdrawal.
Though Karzai has refused to sign the BSA, which offers legal protections for US troops and defines a post-2014 Nato training and anti-terror mission, some of the candidates in April’s Afghan elections have indicated they would sign it.
The statement said that Obama was reserving the “possibility of concluding a BSA with Afghanistan later this year”, should he find a willing partner in the Afghan government.
It was the most concrete sign yet that Washington may be willing to wait out the Afghan electoral process before making a final decision on Afghanistan’s future.
However, the statement warned “the longer we go without a BSA, the more challenging it will be to plan and execute any US mission”, the White House warned. “Furthermore, the longer we go without a BSA, the more likely it will be that any post-2014 US mission will be smaller in scale and ambition.”
The statement clearly implied that Karzai’s behaviour, and his desire to wield authority in the dying months of his mandate would harm his nation’s security long into the future.
…جویریہ صدیق…
پاکستان میں خواتین بہت سے مسائل کا شکار ہیں جن میں کم عمری کی شادی،صنفی امتیاز،غذائی قلت،تیزاب گردی،طبی سہولیات کا فقدان،دوران زچگی اموات، گھریلو تشدد،غیرت کے نام پر قتل،ریپ، ملازمت کے کم مواقع اور تنگ نظری شامل ہیں۔ زیادہ تر افراد بیٹی کی پیدایش پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔بیٹے کی غذائی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں بیٹیوں کو مناسب خوراک بھی مل نہیں پاتی ، اس ہی وجہ سے یہ بچیاں جب شادی کے بعد امید سے ہوتی ہیں تو دوران حمل طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوجا تی اور سسرال والوں کا غیر مناسب رویہ،حفظان صحت کے اصولوں پر عمل نا کرنا،غربت، غیر تربیت یافتہ دایاں، طبی سہولیات کا فقدان بھی ان کی جان کو لاتعداد خطرے لاحق کردیتا ہے۔
پاکستان میں دوران زچگی خواتین کی اموات کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہوگی ہے ہر سال 25 سے 30ہزار خواتین زچگی میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ خوراک کی کمی اور مردوں کی لاپروایی سے ماں اور بچے کی زندگی کو بہت سے خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور ماوں کے ساتھ ساتھ روزانہ11 سوسے زائد بچے بھی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ سال 2013 میں56 خواتین کو صرف بیٹی پیدا کرنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
پاکستان میں جو خواتین پڑھنے لکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن جب وہ ملازمت کے حصول کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں تو سواے تعلیم اور صحت کے شعبے کہ ان سے باقی شعبوں میں ملازمت اور تنخواوں میں اضافے پر امتیاز برتا جاتا ہے۔ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق پاکستان، چاڈ، یمن اور چلی صنفی امتیاز کے حوالے سے بدترین ملکوں میں شامل ہیں۔خواتین کو ملازمت کے حصول سے لیے کر ملازمت کرنے تک مختلف النوع مشکلات اوراذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،جس کا اظہار گھورنے، پریشان کرنے ،تعاقب کرنے غیر شائستہ اشارے ، مذاق اور جنسی حملے کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے اس سے خواتین ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور اپنا اعتماد کھو بیٹھتی ہیں۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں قرآن سے شادی،ونی اورکاروکاری جیسی رسوم کی وجہ سے بھی استحصال کا شکار ہیں اور ان خواتین کی زندگی کی ڈور صرف جرگے اور پنچایت کے ہاتھ میں ہے۔صرف2013 میں 840 خواتین غیریت کے نام پر قتل کردی گئیں۔
2013 میں344 گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔تیزاب گردی میں دو ہزار تیرہ سے اب تک نوے لڑکیوں کے چہرے تیزاب سے جھلسا دیے گئے اور کسی کے مجرم کو اب تک سزا نہیں ہوئی ہے۔
گھریلو تشدد بھی ایک ایسا دیمک ہے جو عورتوں کو کھا رہا ہے اور گھریلو تشدد کے بیشتر واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے جو پچھلے سال رپورٹ ہویے ان کی تعداد پانچ ہزار کے قریب تھی۔تشدد کے وقعات میں پچھلے سال سے اب تک بہتر خواتین کو زندہ جلا کر مار دیا گیا۔
سیاست اور قانون سازی کی بات ہو تو وفاقی کابینہ یا صوبایی خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے خواتین کو نا ہی دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں جنرل نشستوں پر خاطر خواہ کامیابی ہویہی اور نا ہی مخصوص نشستوں پر میرٹ کا خیال رکھا گیا۔ ریاست کے چار اہم ستونوں کے اعلیٰ عہدوں پر کوئی بھی خاتون فائز نہیں۔
اگرچہ خواتین معاشرے کی معاشی ترقی کے لیے حیات افزا کردار ادا کرتی ہیں لیکن ان کے اس کردار کو شاذونادر ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کی طرف سے عورت کو گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خصوصی سہولیات فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھا ئے گئے ہیں جبکہ کہ ایک بڑی اکثریت بحیثیت عورت اپنے بنیادی حقوق پر سمجھوتہ کیے ہوئے ہیں۔
خواتین کے ساتھ پاکستان میں جاری ناروا سلوک کو دیکھتے ہوئے ان کے حق میں مخلتف اقدامات کی فوری ضرورت ہے، جن میں خواتین دوست قانوں سازی کی جائے،انہیں ملازمتوں میں مردوں کے برابر مواقع ملنے چاہئیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ان کی تقرریاں کی جائیں۔ خواتین پر تشدد کرنے والے افراد کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے اور سب سے بڑھ کر معاشرے میں والدین کو اولاد کی تربیت کرتے وقت خواتین کا احترام کرنا ضرور سکھایا جائے۔ - See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9547#sthash.dTccGLb2.dpuf
…جویریہ صدیق…
پاکستان میں خواتین بہت سے مسائل کا شکار ہیں جن میں کم عمری کی شادی،صنفی امتیاز،غذائی قلت،تیزاب گردی،طبی سہولیات کا فقدان،دوران زچگی اموات، گھریلو تشدد،غیرت کے نام پر قتل،ریپ، ملازمت کے کم مواقع اور تنگ نظری شامل ہیں۔ زیادہ تر افراد بیٹی کی پیدایش پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔بیٹے کی غذائی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں بیٹیوں کو مناسب خوراک بھی مل نہیں پاتی ، اس ہی وجہ سے یہ بچیاں جب شادی کے بعد امید سے ہوتی ہیں تو دوران حمل طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوجا تی اور سسرال والوں کا غیر مناسب رویہ،حفظان صحت کے اصولوں پر عمل نا کرنا،غربت، غیر تربیت یافتہ دایاں، طبی سہولیات کا فقدان بھی ان کی جان کو لاتعداد خطرے لاحق کردیتا ہے۔
پاکستان میں دوران زچگی خواتین کی اموات کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہوگی ہے ہر سال 25 سے 30ہزار خواتین زچگی میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ خوراک کی کمی اور مردوں کی لاپروایی سے ماں اور بچے کی زندگی کو بہت سے خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور ماوں کے ساتھ ساتھ روزانہ11 سوسے زائد بچے بھی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ سال 2013 میں56 خواتین کو صرف بیٹی پیدا کرنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
پاکستان میں جو خواتین پڑھنے لکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن جب وہ ملازمت کے حصول کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں تو سواے تعلیم اور صحت کے شعبے کہ ان سے باقی شعبوں میں ملازمت اور تنخواوں میں اضافے پر امتیاز برتا جاتا ہے۔ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق پاکستان، چاڈ، یمن اور چلی صنفی امتیاز کے حوالے سے بدترین ملکوں میں شامل ہیں۔خواتین کو ملازمت کے حصول سے لیے کر ملازمت کرنے تک مختلف النوع مشکلات اوراذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،جس کا اظہار گھورنے، پریشان کرنے ،تعاقب کرنے غیر شائستہ اشارے ، مذاق اور جنسی حملے کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے اس سے خواتین ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور اپنا اعتماد کھو بیٹھتی ہیں۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں قرآن سے شادی،ونی اورکاروکاری جیسی رسوم کی وجہ سے بھی استحصال کا شکار ہیں اور ان خواتین کی زندگی کی ڈور صرف جرگے اور پنچایت کے ہاتھ میں ہے۔صرف2013 میں 840 خواتین غیریت کے نام پر قتل کردی گئیں۔
2013 میں344 گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔تیزاب گردی میں دو ہزار تیرہ سے اب تک نوے لڑکیوں کے چہرے تیزاب سے جھلسا دیے گئے اور کسی کے مجرم کو اب تک سزا نہیں ہوئی ہے۔
گھریلو تشدد بھی ایک ایسا دیمک ہے جو عورتوں کو کھا رہا ہے اور گھریلو تشدد کے بیشتر واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے جو پچھلے سال رپورٹ ہویے ان کی تعداد پانچ ہزار کے قریب تھی۔تشدد کے وقعات میں پچھلے سال سے اب تک بہتر خواتین کو زندہ جلا کر مار دیا گیا۔
سیاست اور قانون سازی کی بات ہو تو وفاقی کابینہ یا صوبایی خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے خواتین کو نا ہی دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں جنرل نشستوں پر خاطر خواہ کامیابی ہویہی اور نا ہی مخصوص نشستوں پر میرٹ کا خیال رکھا گیا۔ ریاست کے چار اہم ستونوں کے اعلیٰ عہدوں پر کوئی بھی خاتون فائز نہیں۔
اگرچہ خواتین معاشرے کی معاشی ترقی کے لیے حیات افزا کردار ادا کرتی ہیں لیکن ان کے اس کردار کو شاذونادر ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کی طرف سے عورت کو گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خصوصی سہولیات فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھا ئے گئے ہیں جبکہ کہ ایک بڑی اکثریت بحیثیت عورت اپنے بنیادی حقوق پر سمجھوتہ کیے ہوئے ہیں۔
خواتین کے ساتھ پاکستان میں جاری ناروا سلوک کو دیکھتے ہوئے ان کے حق میں مخلتف اقدامات کی فوری ضرورت ہے، جن میں خواتین دوست قانوں سازی کی جائے،انہیں ملازمتوں میں مردوں کے برابر مواقع ملنے چاہئیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ان کی تقرریاں کی جائیں۔ خواتین پر تشدد کرنے والے افراد کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے اور سب سے بڑھ کر معاشرے میں والدین کو اولاد کی تربیت کرتے وقت خواتین کا احترام کرنا ضرور سکھایا جائے۔ - See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9547#sthash.dTccGLb2.dpuf
…جویریہ صدیق…
پاکستان میں خواتین بہت سے مسائل کا شکار ہیں جن میں کم عمری کی شادی،صنفی امتیاز،غذائی قلت،تیزاب گردی،طبی سہولیات کا فقدان،دوران زچگی اموات، گھریلو تشدد،غیرت کے نام پر قتل،ریپ، ملازمت کے کم مواقع اور تنگ نظری شامل ہیں۔ زیادہ تر افراد بیٹی کی پیدایش پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔بیٹے کی غذائی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں بیٹیوں کو مناسب خوراک بھی مل نہیں پاتی ، اس ہی وجہ سے یہ بچیاں جب شادی کے بعد امید سے ہوتی ہیں تو دوران حمل طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوجا تی اور سسرال والوں کا غیر مناسب رویہ،حفظان صحت کے اصولوں پر عمل نا کرنا،غربت، غیر تربیت یافتہ دایاں، طبی سہولیات کا فقدان بھی ان کی جان کو لاتعداد خطرے لاحق کردیتا ہے۔
پاکستان میں دوران زچگی خواتین کی اموات کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہوگی ہے ہر سال 25 سے 30ہزار خواتین زچگی میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ خوراک کی کمی اور مردوں کی لاپروایی سے ماں اور بچے کی زندگی کو بہت سے خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور ماوں کے ساتھ ساتھ روزانہ11 سوسے زائد بچے بھی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ سال 2013 میں56 خواتین کو صرف بیٹی پیدا کرنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
پاکستان میں جو خواتین پڑھنے لکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن جب وہ ملازمت کے حصول کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں تو سواے تعلیم اور صحت کے شعبے کہ ان سے باقی شعبوں میں ملازمت اور تنخواوں میں اضافے پر امتیاز برتا جاتا ہے۔ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق پاکستان، چاڈ، یمن اور چلی صنفی امتیاز کے حوالے سے بدترین ملکوں میں شامل ہیں۔خواتین کو ملازمت کے حصول سے لیے کر ملازمت کرنے تک مختلف النوع مشکلات اوراذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،جس کا اظہار گھورنے، پریشان کرنے ،تعاقب کرنے غیر شائستہ اشارے ، مذاق اور جنسی حملے کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے اس سے خواتین ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور اپنا اعتماد کھو بیٹھتی ہیں۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں قرآن سے شادی،ونی اورکاروکاری جیسی رسوم کی وجہ سے بھی استحصال کا شکار ہیں اور ان خواتین کی زندگی کی ڈور صرف جرگے اور پنچایت کے ہاتھ میں ہے۔صرف2013 میں 840 خواتین غیریت کے نام پر قتل کردی گئیں۔
2013 میں344 گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔تیزاب گردی میں دو ہزار تیرہ سے اب تک نوے لڑکیوں کے چہرے تیزاب سے جھلسا دیے گئے اور کسی کے مجرم کو اب تک سزا نہیں ہوئی ہے۔
گھریلو تشدد بھی ایک ایسا دیمک ہے جو عورتوں کو کھا رہا ہے اور گھریلو تشدد کے بیشتر واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے جو پچھلے سال رپورٹ ہویے ان کی تعداد پانچ ہزار کے قریب تھی۔تشدد کے وقعات میں پچھلے سال سے اب تک بہتر خواتین کو زندہ جلا کر مار دیا گیا۔
سیاست اور قانون سازی کی بات ہو تو وفاقی کابینہ یا صوبایی خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے خواتین کو نا ہی دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں جنرل نشستوں پر خاطر خواہ کامیابی ہویہی اور نا ہی مخصوص نشستوں پر میرٹ کا خیال رکھا گیا۔ ریاست کے چار اہم ستونوں کے اعلیٰ عہدوں پر کوئی بھی خاتون فائز نہیں۔
اگرچہ خواتین معاشرے کی معاشی ترقی کے لیے حیات افزا کردار ادا کرتی ہیں لیکن ان کے اس کردار کو شاذونادر ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کی طرف سے عورت کو گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خصوصی سہولیات فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھا ئے گئے ہیں جبکہ کہ ایک بڑی اکثریت بحیثیت عورت اپنے بنیادی حقوق پر سمجھوتہ کیے ہوئے ہیں۔
خواتین کے ساتھ پاکستان میں جاری ناروا سلوک کو دیکھتے ہوئے ان کے حق میں مخلتف اقدامات کی فوری ضرورت ہے، جن میں خواتین دوست قانوں سازی کی جائے،انہیں ملازمتوں میں مردوں کے برابر مواقع ملنے چاہئیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ان کی تقرریاں کی جائیں۔ خواتین پر تشدد کرنے والے افراد کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے اور سب سے بڑھ کر معاشرے میں والدین کو اولاد کی تربیت کرتے وقت خواتین کا احترام کرنا ضرور سکھایا جائے۔ - See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9547#sthash.dTccGLb2.dpuf
…جویریہ صدیق…
پاکستان میں خواتین بہت سے مسائل کا شکار ہیں جن میں کم عمری کی شادی،صنفی امتیاز،غذائی قلت،تیزاب گردی،طبی سہولیات کا فقدان،دوران زچگی اموات، گھریلو تشدد،غیرت کے نام پر قتل،ریپ، ملازمت کے کم مواقع اور تنگ نظری شامل ہیں۔ زیادہ تر افراد بیٹی کی پیدایش پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔بیٹے کی غذائی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں بیٹیوں کو مناسب خوراک بھی مل نہیں پاتی ، اس ہی وجہ سے یہ بچیاں جب شادی کے بعد امید سے ہوتی ہیں تو دوران حمل طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوجا تی اور سسرال والوں کا غیر مناسب رویہ،حفظان صحت کے اصولوں پر عمل نا کرنا،غربت، غیر تربیت یافتہ دایاں، طبی سہولیات کا فقدان بھی ان کی جان کو لاتعداد خطرے لاحق کردیتا ہے۔
پاکستان میں دوران زچگی خواتین کی اموات کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہوگی ہے ہر سال 25 سے 30ہزار خواتین زچگی میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ خوراک کی کمی اور مردوں کی لاپروایی سے ماں اور بچے کی زندگی کو بہت سے خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور ماوں کے ساتھ ساتھ روزانہ11 سوسے زائد بچے بھی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ سال 2013 میں56 خواتین کو صرف بیٹی پیدا کرنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
پاکستان میں جو خواتین پڑھنے لکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن جب وہ ملازمت کے حصول کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں تو سواے تعلیم اور صحت کے شعبے کہ ان سے باقی شعبوں میں ملازمت اور تنخواوں میں اضافے پر امتیاز برتا جاتا ہے۔ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق پاکستان، چاڈ، یمن اور چلی صنفی امتیاز کے حوالے سے بدترین ملکوں میں شامل ہیں۔خواتین کو ملازمت کے حصول سے لیے کر ملازمت کرنے تک مختلف النوع مشکلات اوراذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،جس کا اظہار گھورنے، پریشان کرنے ،تعاقب کرنے غیر شائستہ اشارے ، مذاق اور جنسی حملے کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے اس سے خواتین ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور اپنا اعتماد کھو بیٹھتی ہیں۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں قرآن سے شادی،ونی اورکاروکاری جیسی رسوم کی وجہ سے بھی استحصال کا شکار ہیں اور ان خواتین کی زندگی کی ڈور صرف جرگے اور پنچایت کے ہاتھ میں ہے۔صرف2013 میں 840 خواتین غیریت کے نام پر قتل کردی گئیں۔
2013 میں344 گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔تیزاب گردی میں دو ہزار تیرہ سے اب تک نوے لڑکیوں کے چہرے تیزاب سے جھلسا دیے گئے اور کسی کے مجرم کو اب تک سزا نہیں ہوئی ہے۔
گھریلو تشدد بھی ایک ایسا دیمک ہے جو عورتوں کو کھا رہا ہے اور گھریلو تشدد کے بیشتر واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے جو پچھلے سال رپورٹ ہویے ان کی تعداد پانچ ہزار کے قریب تھی۔تشدد کے وقعات میں پچھلے سال سے اب تک بہتر خواتین کو زندہ جلا کر مار دیا گیا۔
سیاست اور قانون سازی کی بات ہو تو وفاقی کابینہ یا صوبایی خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے خواتین کو نا ہی دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں جنرل نشستوں پر خاطر خواہ کامیابی ہویہی اور نا ہی مخصوص نشستوں پر میرٹ کا خیال رکھا گیا۔ ریاست کے چار اہم ستونوں کے اعلیٰ عہدوں پر کوئی بھی خاتون فائز نہیں۔
اگرچہ خواتین معاشرے کی معاشی ترقی کے لیے حیات افزا کردار ادا کرتی ہیں لیکن ان کے اس کردار کو شاذونادر ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کی طرف سے عورت کو گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خصوصی سہولیات فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھا ئے گئے ہیں جبکہ کہ ایک بڑی اکثریت بحیثیت عورت اپنے بنیادی حقوق پر سمجھوتہ کیے ہوئے ہیں۔
خواتین کے ساتھ پاکستان میں جاری ناروا سلوک کو دیکھتے ہوئے ان کے حق میں مخلتف اقدامات کی فوری ضرورت ہے، جن میں خواتین دوست قانوں سازی کی جائے،انہیں ملازمتوں میں مردوں کے برابر مواقع ملنے چاہئیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ان کی تقرریاں کی جائیں۔ خواتین پر تشدد کرنے والے افراد کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے اور سب سے بڑھ کر معاشرے میں والدین کو اولاد کی تربیت کرتے وقت خواتین کا احترام کرنا ضرور سکھایا جائے۔ - See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9547#sthash.dTccGLb2.dpuf

No comments:

Post a Comment