Friday 28 February 2014

لاہور میں وکلا گردی کا ایک اور واقعہ؛ وکیل نے جج کے ریڈر کو تھپڑ مار دیا

جج صاحب میں آپ سے تو معافی مانگ سکتا ہوں لیکن ریڈر سے معافی نہیں مانگوں گا، ایڈوکیٹ اسلم رانا۔ فوٹو؛ فائل
لاہور: ماڈل ٹاؤن کچہری میں وکیل نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے جج کے ریڈر کو فائل ڈھونڈنے میں تاخیر کرنے پر تھپڑ مار دیا جس پر عدالتی عملے نے  بائیکاٹ کرتے ہوئے کام کرنے سے انکار کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جودیشل مجسٹریٹ امتیاز نور کی عدالت میں ایڈوکیٹ اسلم رانا نے ریڈر کو ایک فائل ڈھونڈنے کا کہا تاہم فائل ڈھونڈنے میں تاخیر پر ریڈر اور وکیل کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی اور پھر ایڈوکیٹ اسلم رانا نے ریڈر کے منہ پر تھپڑ مار دیا جس پر مجسٹریٹ کے جج امتیاز نور نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈوکیٹ اسلم رانا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا رویہ مناسب نہیں، آپ ریڈر سے معافی مانگیں۔
ایڈوکیٹ اسلم رانا کا جواب میں کہنا تھا کہ جج صاحب میں آپ سے تو معافی مانگ سکتا ہوں لیکن ریڈر سے معافی نہیں مانگوں گا جس پر تمام عدالتی عملے نے عدالت کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کام کرنے سے انکار کر دیا۔

اسرائیل نے 50 سال سے کم عمرکے فلسطینیوں پر مسجد اقصیٰ کے دروازے بند کردیئے

اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے اسرائیلی فیصلے کو بیت المقدس پر قبضے کی کوشش قرار دیا ہے. فوٹو: رائٹرز
تل ابيب: طاقت کے نشے میں چور اسرائیل نے ہٹ دھرمی کا ایک مظاہرہ کرتے ہوئے اب 50 سال سے  کم عمر کے فلسطینیوں پر مسجد اقصیٰ کے دروازے ہی بند کردیئے ہیں۔
غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق  اسرائیل نے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد اقصیٰ جانے والے 50 سال سے کم عمر فلسطینیوں پر مسجد کے اندر داخلے پر پابندی لگادی  ہے اورصیہونی حکام نے یہ فیصلہ منگل کو مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والے تصادم کی وجہ سے کیا ۔ اسرائیلی پولیس کے ترجمان کے مطابق حکومتی فیصلے کے بعد اب  نماز جمعہ کے دوران 50 سال سے کم عمر کے فلسطینیوں کو مسجد کے احاطے کے باہر ہی محدود رکھا جائے گا۔
واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیلی پارلیمنٹ مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں یہودیوں کو عبادت کی اجازت دینے کے حوالے سے بحث کی تیاری کررہی ہے، اسرائیلی فیصلے کی وجہ سے عالم اسلام میں غم وغصے کی شدید لہر دوڑ گئی ہے اور اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے بھی اس بحث کی سخت مذمت کرتے اسے اسرائیل کی جانب سے بیت المقدس پر قبضے کا منصوبہ قرار دیا ہے۔
دوسری جانب صیہونی ریاست کے اس فیصلے کے خلاف اردن کی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کی جس میں  اسرائیلی سفیر کو فوری طورپر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہےجب کہ اردنی وزیراعظم نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر ایسا کوئی بھی فیصلہ کیا گیا تو ان کا ملک اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر نظرثانی کرے گا۔

جعلی ڈگری کیس میں مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم این اے مدثر قیوم کو ایک سال قید کی سزا


مدثر قیوم ناہرا کو جعلی ڈگری کیس میں سپریم کورٹ نے 2010 نااہل قرار دے دیا تھا۔ فوٹو؛فائل
گوجرانوالا: جعلی ڈگری کیس میں مسلم لیگ (ن) کے سابق رکن قومی اسمبلی مدثر قیوم ناہرا کو ایک سال قید اور 2 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنا دی گئی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق گوجرانوالا کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طارق افتخار چوہدری نے جعلی ڈگری کیس میں مسلم لیگ (ن) کے سابق رکن قومی اسمبلی مدثر قیوم ناہرا کو ایک سال قید اور 2 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنادی۔ عدالتی فیصلے کے بعد مدثر قیوم کو جیل منتقل کردیا گیا ہے جب کہ کیس کی سماعت کے دوران عدالت کے باہر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں بڑی تعداد موجود تھی۔
واضح رہے کہ مدثر قیوم ناہرا 2008 کے عام انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے تاہم سابق ایم این اے رانا بلال اعجاز کی شکایت کے بعد الیکشن کمیشن کی درخواست پر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس پر سپریم کورٹ نے 2010 میں انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

ایف بی آئی نے9/11 سے 8سال قبل اسامہ تک رسائی حاصل کرلی تھی


 0
نیویارک…ایف بی آئی نے اسامہ بن لادن تک رسائی حاصل کرلی تھی ، امریکی میڈیا امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے القاعدہ میں اپنا ایجنٹ نائن الیون حملوں سے آٹھ سال پہلے ہی داخل کردیا تھا ، لیکن ایف بی آئی نے یہ بات نہ صرف امریکی حکومت سے بلکہ نائن الیون حملوں کی تحقیقاتی کمیٹیوں سے بھی چھپائے رکھی اور نائن الیون حملے بھی ہوکر رہے ، ایف بی آئی نے اسامہ بن لادن تک رسائی حاصل کرلی تھی ۔خفیہ ایجنٹ نے اسامہ بن لادن سے ملاقات بھی کی کرلی تھی لیکن نائن الیون حملے ہونے تھے اور ہوکر رہے۔ساری امریکی پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی ، دنیا میں سب سے زیادہ ایجنسیوں کا نیٹ ورک منہ دیکھتا رہ گیا۔کیا ڈبل ایجنٹ امریکا کے ساتھ ہاتھ کرگیا یا امریکی ایجنسی نے اپنی حکومت کو ہاتھ دکھایا، اسامہ کی کہانی میں نیا موڑ سامنے آگیا ہے۔امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق انیس سو ترانوے میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پرپہلے حملوں کے ماسٹرمائنڈ عمرعبدالرحمان کے گروپ سے دو دو لوگوں کو رضامند کرلیا کہ وہ اس کے لیے کام کریں ، ان میں سے ایک عمر عبدالرحمان کا ڈرائیور بھی تھا ، یہ ایجنٹ عمر عبدالرحمان کا اعتماد اورحوالہ لے کر اسامہ بن لادن تک پہنچ گیا۔اس ایجنٹ کو ایف بی آئی کے لیے کام کرنے پر رضا مند کرنے والا ایف بی آئی کا اہلکاربسیم یوسف تھا جو اپنی پلاننگ میں کامیاب بھی رہا ،لیکن نائن الیون کے بعد وہ خود ایف بی آئی کی نظر میں مشکوک ہوگیا اور دو سال قبل اس نے بھی ایف بی آئی کے خلاف کیس میں اعتراف کیا کہ تیارکردہ ایجنٹ نے دوسال کے اندر ہی القاعدہ کے امریکا اور باہر موجود نیٹ ورک کی انتہائی حساس معلومات فراہم کی تھیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب ایف بی آئی کی اپنی پلاننگ کے تحت ہورہا تھا لیکن نہ صرف یہ کہ ایف بی آئی حملے روکنے میں ناکام رہی بلکہ اس نے حملوں کے بعد بھی اپنے ڈبل ایجنٹ کا معاملہ نائن الیون حملوں کی تحقیقاتی کمیٹیوں سے چھپائے رکھی ۔نائن الیون حملوں کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے پہلے ہی ایف بی آئی اور سی آئی اے پر سنجیدہ نوعیت کے الزامات لگارکھے ہیں کہ انہوں نے حملوں کی پلاننگ کا راز حاصل کرنے کے 

Wednesday 26 February 2014

Taliban claims popularity skyrocketing in Pakistan


Taliban claims popularity skyrocketing in Pakistan
 0  0
 
 0  0  New PESHAWAR: The outlawed militant outfit Tehrik-i-Taliban Pakistan (TTP) Wednesday claimed that its popularity was on the rise in Pakistan, Geo News reported.
"An ever increasing number of Pakistanis are joining hands with us adding more and more firepower to our jihadist capabilities. The graph of our popularity is going north", Shahidullah Shahid, the TTP spokesman said in a statement issued here.
Going forward, Shahid made light of a military operation the government of Pakistan was yet undecided over.
"We are dying to see the "glorious" results of a "grand" onslaught that the "valiant" armed forces of Pakistan are preparing to launch against us", said the TTP spokesman ironically.
He said that the Pakistanis were waking up to reality that the real issue was not the slavery of US but the system that was imposed upon Pakistan since it came into being in 1947.
He also advised the government of trying to figure out what actually forced the TTP to start its jihadist movement.
"Instead of pulling the "trigger", if the government of Pakistan focuses on removing the "triggers" of this war the TTP’s anti-state activities will reduce drastically", said he.
Without mincing his words, Shahidullah Shahid warned that in case of a military operation the local tribesmen would suffer far greater losses than Taliban.

Plan to attack KPK IG foiled, Taliban commander arrested


Plan to attack KPK IG foiled, Taliban commander arrested
 6  43
 
 1  0  110 PESHAWAR: Police and sensitive organizations have arrested Taliban commander Qari Anas and his two accomplices wading off planned attempts on the lives of Khyber Pukhtunkhaw (KPK) Inspector General (IG) and other high police officials, Geo News reported.
Police sources said that Taliban commander Qari Anas alis Abu Musa was holed up near Swabi Interchange, when on a tip-off the police party and men from the sensitive organizations conducting a raid arrested him and his two accomplices. Modern weapons were recovered from the possession of the accused, police said.
Sources said that the accused were planning to target the KPK IG, Nasir Durrani and other high police officials passing through the Swabi Interchange.

Altaf Hussain calls for a ‘military take over’

Altaf Hussain calls for a ‘military take over’
 52  55
 
 0  1  138 LONDON: In a surprising statement on Tuesday, Muttahida Qaumi Movement (MQM) Chief, Altaf Hussain called upon the military to come forward for a take over of the country in case the army and government fail to come on the same page.
“We will have to decide between saving Pakistan and democracy,” Altaf Husain stressed in a statement issued from London, adding, ‘there will be a democracy, if there is Pakistan’.
The MQM Chief stated that he could care less if anyone says he was inviting dictatorship in the country.
He said he would rather support the idea of resolution of issues through a dialogue but stressed that ‘first the writ of the state and Constitution will have to be established; a ceasefire and dialogue come next’.
Altaf Hussain exhorted the government to establish a fund for the families of the martyrs of law enforcers. MQM, he added, will also contribute its share to this fund.
The statement from the MQM supreme comes at a time when the country is being run under a democratic set up following a smooth transfer of power from a similar dispensation in the wake of May 2013 elections.

Taliban ready for military operation consequences: TTP spokesman

Taliban ready for military operation consequences: TTP spokesman  
 
PESHAWAR: Tehrik-i-Taliban Pakistan (TTP) spokesman Shahidullah Shahid has said that Taliban were ready for the consequences of military operation, Geo News reported.
In a statement, TTP spokesman said military operation will incur less loss to Taliban and that the rulers must fulfill their will for compiling the statistics.
Earlier, in the statement, Shahidullah Shahid had confirmed the killing of top Taliban commander Asmatullah Shaheen.
The TTP spokesman said the Taliban suffered an irreparable loss due to the death of Asmatullah Shaheen. He alleged intelligence agencies for assassination of Shaheen.
Posted On Wednesday, February 26, 2014   …جویریہ صدیق… بچوں کی نگہداشت ایک ایسا عمل ہے جوکہ اگر موثر طریقے سے انجام دیا جائے تو ہی ہم ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔کسی بھی بچے کے صحت مند ہونے کی ضمانت ایک صحت مند ماں ہی دے سکتی ہے۔حمل سے لے کر زچگی تک ماں کے آرام اور غذا کا مکمل خیال رکھا جائے تب ہی وہ ایک صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے۔ پاکستان میں یہ شرح بہت کم ہے کہ دوران حمل زچہ اور بچہ کی صحت کا خیال رکھا جائے اور ان کا طبی معائنہ متواتر کروایا جائے اسی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 25 سے 30ہزار خواتین زچگی میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں اور ایک ہزار میں سے 48بچے پیدائش کے پہلے ماہ میں ہی فوت ہوجاتے ہیں اور 40اعشاریہ 4فیصد بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں۔
بچے کی ولادت کے بعدضروری ہے کہ پورا کنبہ زچہ اور بچہ کا خیال کرے، ان کے آرام اورغذا کا مکمل خیال کرے۔ بچے کے لیے پہلی مکمل غذا ماں کا دودھ ہے۔ اگر ماں بچے کو اپنا دودھ پلائے تو اس کے خدوخال بھی جلد معمول پر آسکتے ہیں اور اس کو چھاتی کا سرطان ہونے کا خدشہ بھی بالکل کم رہ جائے گا۔ ماں کے دودھ سے بچے میں قوت معدافت بڑھتی ہے۔ ماں کے دودھ میں پانی،چکنائی کی مناسب مقدار موجود ہے جو بچوں میں دست، کھانسی، نمونیا، پیٹ کے درد اور بدہضمی کے امکان کو کم کرتا ہے۔ ماں کا دودھ سے گھر کا بجٹ بھی کم رہتا ہے اور قدرتی طور پر دوسرے حمل میں مناسب وقفہ بھی آجاتا ہے۔ بچوں کو دو سال تک دودھ پلانا مفید ہے۔ اس لیے مائیں فیڈر کو مکمل نظر انداز کریں اور بچوں کو صرف اپنا دودھ دیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ماوٴں کو چاہیے کہ وہ اپنی غذا، صحت اور صفائی کا خیال رکھیں اور بچوں کوبھی صاف ستھرا رکھیں۔ ماوٴں کی غذا میں پھل، سبزیاں، دودھ، پانی، انڈے، دالیں اور مچھلی شامل ہوں۔ وہ روزانہ تین وقت کا کھانا کھائیں، ہلکی چہل قدمی کریں، اپنا وزن کنٹرول میں رکھیں ،گوشت اور بازار کے کھانوں سے پرہیز کریں اور جیسے جیسے بچہ کی عمر بڑھے اس کو بھی ماں کے دودھ کے ساتھ اضافی غذا شروع کروادیں جن میں سوجی، ساگودانہ، کیلا، چاولوں کی کھیر، ابلے ہوئے آلو وغیرہ شامل ہیں۔ ڈبے کے دودھ یا غذاوٴں سے مکمل اجتناب کریں۔
غذا کے ساتھ بچوں کو صاف بھی رکھا جائے ان کو نیم گرم پانی سے روز غسل دیا جائے، ان کے سر، چہرے، کانوں کو احتیاط کے ساتھ صاف کیا جائے اور تولیے سے اچھی طرح خشک کرکے موسم کے مطابق کپڑے پہنائے جائیں اورکچھ دیر ان کو ماں ان کوا پنے قریب ہی گرم کپڑے میں ڈھانپ کر رکھے تاکہ نہانے کے بعد بچوں کو ٹھنڈ نہ لگے۔
بچوں کی صحت کے لیے حفاظتی ٹیکوں کا کورس بھی لازم ہے جوکہ بچوں کو پولیو، خناق، تشنج، ٹی بی، کالی کھانسی، خسرہ، نمونیا اور ہیپا ٹائٹس سے بچاتا ہے۔ بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے کے لیے اور انہیں معذوری سے بچانے کے لیے یہ ٹیکے لگوانا انتہانی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ حاملہ ماوٴں کو بھی حفاظتی ٹیکہ جات کا کورس کروانا لازم ہے، اس سے زچہ و بچہ کی شرح اموات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
یہ سب کام تب ہی انجام پا سکتے ہیں جب ماں صحت مند ہوگی اس لیے حمل سے لے کر زچگی تک اور اس کے بعد کے چھ مہنے تک اہل خانہ کو زچہ اور بچہ دونوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ ان کی غذا،صحت، صفائی، ڈاکٹر سے مکمل معائنہ ان کے آرام اور ان کو ہر سہولت مہیا کرنا اہل خانہ کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں مردوں کا کردار بہت اہم ہے، ان کے تعاون سے ہی خواتین صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔ - See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9608#sthash.2UGUjOdZ.dpuf
Posted On Wednesday, February 26, 2014   …جویریہ صدیق… بچوں کی نگہداشت ایک ایسا عمل ہے جوکہ اگر موثر طریقے سے انجام دیا جائے تو ہی ہم ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔کسی بھی بچے کے صحت مند ہونے کی ضمانت ایک صحت مند ماں ہی دے سکتی ہے۔حمل سے لے کر زچگی تک ماں کے آرام اور غذا کا مکمل خیال رکھا جائے تب ہی وہ ایک صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے۔ پاکستان میں یہ شرح بہت کم ہے کہ دوران حمل زچہ اور بچہ کی صحت کا خیال رکھا جائے اور ان کا طبی معائنہ متواتر کروایا جائے اسی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 25 سے 30ہزار خواتین زچگی میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں اور ایک ہزار میں سے 48بچے پیدائش کے پہلے ماہ میں ہی فوت ہوجاتے ہیں اور 40اعشاریہ 4فیصد بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں۔
بچے کی ولادت کے بعدضروری ہے کہ پورا کنبہ زچہ اور بچہ کا خیال کرے، ان کے آرام اورغذا کا مکمل خیال کرے۔ بچے کے لیے پہلی مکمل غذا ماں کا دودھ ہے۔ اگر ماں بچے کو اپنا دودھ پلائے تو اس کے خدوخال بھی جلد معمول پر آسکتے ہیں اور اس کو چھاتی کا سرطان ہونے کا خدشہ بھی بالکل کم رہ جائے گا۔ ماں کے دودھ سے بچے میں قوت معدافت بڑھتی ہے۔ ماں کے دودھ میں پانی،چکنائی کی مناسب مقدار موجود ہے جو بچوں میں دست، کھانسی، نمونیا، پیٹ کے درد اور بدہضمی کے امکان کو کم کرتا ہے۔ ماں کا دودھ سے گھر کا بجٹ بھی کم رہتا ہے اور قدرتی طور پر دوسرے حمل میں مناسب وقفہ بھی آجاتا ہے۔ بچوں کو دو سال تک دودھ پلانا مفید ہے۔ اس لیے مائیں فیڈر کو مکمل نظر انداز کریں اور بچوں کو صرف اپنا دودھ دیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ماوٴں کو چاہیے کہ وہ اپنی غذا، صحت اور صفائی کا خیال رکھیں اور بچوں کوبھی صاف ستھرا رکھیں۔ ماوٴں کی غذا میں پھل، سبزیاں، دودھ، پانی، انڈے، دالیں اور مچھلی شامل ہوں۔ وہ روزانہ تین وقت کا کھانا کھائیں، ہلکی چہل قدمی کریں، اپنا وزن کنٹرول میں رکھیں ،گوشت اور بازار کے کھانوں سے پرہیز کریں اور جیسے جیسے بچہ کی عمر بڑھے اس کو بھی ماں کے دودھ کے ساتھ اضافی غذا شروع کروادیں جن میں سوجی، ساگودانہ، کیلا، چاولوں کی کھیر، ابلے ہوئے آلو وغیرہ شامل ہیں۔ ڈبے کے دودھ یا غذاوٴں سے مکمل اجتناب کریں۔
غذا کے ساتھ بچوں کو صاف بھی رکھا جائے ان کو نیم گرم پانی سے روز غسل دیا جائے، ان کے سر، چہرے، کانوں کو احتیاط کے ساتھ صاف کیا جائے اور تولیے سے اچھی طرح خشک کرکے موسم کے مطابق کپڑے پہنائے جائیں اورکچھ دیر ان کو ماں ان کوا پنے قریب ہی گرم کپڑے میں ڈھانپ کر رکھے تاکہ نہانے کے بعد بچوں کو ٹھنڈ نہ لگے۔
بچوں کی صحت کے لیے حفاظتی ٹیکوں کا کورس بھی لازم ہے جوکہ بچوں کو پولیو، خناق، تشنج، ٹی بی، کالی کھانسی، خسرہ، نمونیا اور ہیپا ٹائٹس سے بچاتا ہے۔ بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے کے لیے اور انہیں معذوری سے بچانے کے لیے یہ ٹیکے لگوانا انتہانی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ حاملہ ماوٴں کو بھی حفاظتی ٹیکہ جات کا کورس کروانا لازم ہے، اس سے زچہ و بچہ کی شرح اموات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
یہ سب کام تب ہی انجام پا سکتے ہیں جب ماں صحت مند ہوگی اس لیے حمل سے لے کر زچگی تک اور اس کے بعد کے چھ مہنے تک اہل خانہ کو زچہ اور بچہ دونوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ ان کی غذا،صحت، صفائی، ڈاکٹر سے مکمل معائنہ ان کے آرام اور ان کو ہر سہولت مہیا کرنا اہل خانہ کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں مردوں کا کردار بہت اہم ہے، ان کے تعاون سے ہی خواتین صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔ - See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9608#sthash.2UGUjOdZ.dpuf
Posted On Wednesday, February 26, 2014   …جویریہ صدیق… بچوں کی نگہداشت ایک ایسا عمل ہے جوکہ اگر موثر طریقے سے انجام دیا جائے تو ہی ہم ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔کسی بھی بچے کے صحت مند ہونے کی ضمانت ایک صحت مند ماں ہی دے سکتی ہے۔حمل سے لے کر زچگی تک ماں کے آرام اور غذا کا مکمل خیال رکھا جائے تب ہی وہ ایک صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے۔ پاکستان میں یہ شرح بہت کم ہے کہ دوران حمل زچہ اور بچہ کی صحت کا خیال رکھا جائے اور ان کا طبی معائنہ متواتر کروایا جائے اسی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 25 سے 30ہزار خواتین زچگی میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں اور ایک ہزار میں سے 48بچے پیدائش کے پہلے ماہ میں ہی فوت ہوجاتے ہیں اور 40اعشاریہ 4فیصد بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں۔
بچے کی ولادت کے بعدضروری ہے کہ پورا کنبہ زچہ اور بچہ کا خیال کرے، ان کے آرام اورغذا کا مکمل خیال کرے۔ بچے کے لیے پہلی مکمل غذا ماں کا دودھ ہے۔ اگر ماں بچے کو اپنا دودھ پلائے تو اس کے خدوخال بھی جلد معمول پر آسکتے ہیں اور اس کو چھاتی کا سرطان ہونے کا خدشہ بھی بالکل کم رہ جائے گا۔ ماں کے دودھ سے بچے میں قوت معدافت بڑھتی ہے۔ ماں کے دودھ میں پانی،چکنائی کی مناسب مقدار موجود ہے جو بچوں میں دست، کھانسی، نمونیا، پیٹ کے درد اور بدہضمی کے امکان کو کم کرتا ہے۔ ماں کا دودھ سے گھر کا بجٹ بھی کم رہتا ہے اور قدرتی طور پر دوسرے حمل میں مناسب وقفہ بھی آجاتا ہے۔ بچوں کو دو سال تک دودھ پلانا مفید ہے۔ اس لیے مائیں فیڈر کو مکمل نظر انداز کریں اور بچوں کو صرف اپنا دودھ دیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ماوٴں کو چاہیے کہ وہ اپنی غذا، صحت اور صفائی کا خیال رکھیں اور بچوں کوبھی صاف ستھرا رکھیں۔ ماوٴں کی غذا میں پھل، سبزیاں، دودھ، پانی، انڈے، دالیں اور مچھلی شامل ہوں۔ وہ روزانہ تین وقت کا کھانا کھائیں، ہلکی چہل قدمی کریں، اپنا وزن کنٹرول میں رکھیں ،گوشت اور بازار کے کھانوں سے پرہیز کریں اور جیسے جیسے بچہ کی عمر بڑھے اس کو بھی ماں کے دودھ کے ساتھ اضافی غذا شروع کروادیں جن میں سوجی، ساگودانہ، کیلا، چاولوں کی کھیر، ابلے ہوئے آلو وغیرہ شامل ہیں۔ ڈبے کے دودھ یا غذاوٴں سے مکمل اجتناب کریں۔
غذا کے ساتھ بچوں کو صاف بھی رکھا جائے ان کو نیم گرم پانی سے روز غسل دیا جائے، ان کے سر، چہرے، کانوں کو احتیاط کے ساتھ صاف کیا جائے اور تولیے سے اچھی طرح خشک کرکے موسم کے مطابق کپڑے پہنائے جائیں اورکچھ دیر ان کو ماں ان کوا پنے قریب ہی گرم کپڑے میں ڈھانپ کر رکھے تاکہ نہانے کے بعد بچوں کو ٹھنڈ نہ لگے۔
بچوں کی صحت کے لیے حفاظتی ٹیکوں کا کورس بھی لازم ہے جوکہ بچوں کو پولیو، خناق، تشنج، ٹی بی، کالی کھانسی، خسرہ، نمونیا اور ہیپا ٹائٹس سے بچاتا ہے۔ بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے کے لیے اور انہیں معذوری سے بچانے کے لیے یہ ٹیکے لگوانا انتہانی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ حاملہ ماوٴں کو بھی حفاظتی ٹیکہ جات کا کورس کروانا لازم ہے، اس سے زچہ و بچہ کی شرح اموات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
یہ سب کام تب ہی انجام پا سکتے ہیں جب ماں صحت مند ہوگی اس لیے حمل سے لے کر زچگی تک اور اس کے بعد کے چھ مہنے تک اہل خانہ کو زچہ اور بچہ دونوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ ان کی غذا،صحت، صفائی، ڈاکٹر سے مکمل معائنہ ان کے آرام اور ان کو ہر سہولت مہیا کرنا اہل خانہ کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں مردوں کا کردار بہت اہم ہے، ان کے تعاون سے ہی خواتین صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔ - See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9608#sthash.2UGUjOdZ.dpuf
Posted On Wednesday, February 26, 2014   …جویریہ صدیق… بچوں کی نگہداشت ایک ایسا عمل ہے جوکہ اگر موثر طریقے سے انجام دیا جائے تو ہی ہم ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔کسی بھی بچے کے صحت مند ہونے کی ضمانت ایک صحت مند ماں ہی دے سکتی ہے۔حمل سے لے کر زچگی تک ماں کے آرام اور غذا کا مکمل خیال رکھا جائے تب ہی وہ ایک صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے۔ پاکستان میں یہ شرح بہت کم ہے کہ دوران حمل زچہ اور بچہ کی صحت کا خیال رکھا جائے اور ان کا طبی معائنہ متواتر کروایا جائے اسی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 25 سے 30ہزار خواتین زچگی میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں اور ایک ہزار میں سے 48بچے پیدائش کے پہلے ماہ میں ہی فوت ہوجاتے ہیں اور 40اعشاریہ 4فیصد بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں۔
بچے کی ولادت کے بعدضروری ہے کہ پورا کنبہ زچہ اور بچہ کا خیال کرے، ان کے آرام اورغذا کا مکمل خیال کرے۔ بچے کے لیے پہلی مکمل غذا ماں کا دودھ ہے۔ اگر ماں بچے کو اپنا دودھ پلائے تو اس کے خدوخال بھی جلد معمول پر آسکتے ہیں اور اس کو چھاتی کا سرطان ہونے کا خدشہ بھی بالکل کم رہ جائے گا۔ ماں کے دودھ سے بچے میں قوت معدافت بڑھتی ہے۔ ماں کے دودھ میں پانی،چکنائی کی مناسب مقدار موجود ہے جو بچوں میں دست، کھانسی، نمونیا، پیٹ کے درد اور بدہضمی کے امکان کو کم کرتا ہے۔ ماں کا دودھ سے گھر کا بجٹ بھی کم رہتا ہے اور قدرتی طور پر دوسرے حمل میں مناسب وقفہ بھی آجاتا ہے۔ بچوں کو دو سال تک دودھ پلانا مفید ہے۔ اس لیے مائیں فیڈر کو مکمل نظر انداز کریں اور بچوں کو صرف اپنا دودھ دیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ماوٴں کو چاہیے کہ وہ اپنی غذا، صحت اور صفائی کا خیال رکھیں اور بچوں کوبھی صاف ستھرا رکھیں۔ ماوٴں کی غذا میں پھل، سبزیاں، دودھ، پانی، انڈے، دالیں اور مچھلی شامل ہوں۔ وہ روزانہ تین وقت کا کھانا کھائیں، ہلکی چہل قدمی کریں، اپنا وزن کنٹرول میں رکھیں ،گوشت اور بازار کے کھانوں سے پرہیز کریں اور جیسے جیسے بچہ کی عمر بڑھے اس کو بھی ماں کے دودھ کے ساتھ اضافی غذا شروع کروادیں جن میں سوجی، ساگودانہ، کیلا، چاولوں کی کھیر، ابلے ہوئے آلو وغیرہ شامل ہیں۔ ڈبے کے دودھ یا غذاوٴں سے مکمل اجتناب کریں۔
غذا کے ساتھ بچوں کو صاف بھی رکھا جائے ان کو نیم گرم پانی سے روز غسل دیا جائے، ان کے سر، چہرے، کانوں کو احتیاط کے ساتھ صاف کیا جائے اور تولیے سے اچھی طرح خشک کرکے موسم کے مطابق کپڑے پہنائے جائیں اورکچھ دیر ان کو ماں ان کوا پنے قریب ہی گرم کپڑے میں ڈھانپ کر رکھے تاکہ نہانے کے بعد بچوں کو ٹھنڈ نہ لگے۔
بچوں کی صحت کے لیے حفاظتی ٹیکوں کا کورس بھی لازم ہے جوکہ بچوں کو پولیو، خناق، تشنج، ٹی بی، کالی کھانسی، خسرہ، نمونیا اور ہیپا ٹائٹس سے بچاتا ہے۔ بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے کے لیے اور انہیں معذوری سے بچانے کے لیے یہ ٹیکے لگوانا انتہانی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ حاملہ ماوٴں کو بھی حفاظتی ٹیکہ جات کا کورس کروانا لازم ہے، اس سے زچہ و بچہ کی شرح اموات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
یہ سب کام تب ہی انجام پا سکتے ہیں جب ماں صحت مند ہوگی اس لیے حمل سے لے کر زچگی تک اور اس کے بعد کے چھ مہنے تک اہل خانہ کو زچہ اور بچہ دونوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ ان کی غذا،صحت، صفائی، ڈاکٹر سے مکمل معائنہ ان کے آرام اور ان کو ہر سہولت مہیا کرنا اہل خانہ کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں مردوں کا کردار بہت اہم ہے، ان کے تعاون سے ہی خواتین صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔ - See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9608#sthash.2UGUjOdZ.dpuf

All parties agreed on talks, not operation: Fazl-ur-Rehman


All parties agreed on talks, not operation: Fazl-ur-Rehman
 0  1
 
 0  0  1 ISLAMABAD: Jamiat Ulema-e-Islam-Fazl (JUI-F) Chief, Maulana Fazl-ur-Rehman Wednesday said there is no agreement from all the parties on using the option of military operation.
Talking to media persons outside the parliament house here, Maulana Fazl-ur-Rehman said all the parties had unanimously approved the holding of peace dialogue between the government and Taliban, and not the military operation.
After two meetings of the negotiating committees from two sides, the process of talks was suspended following the brutal killings of 23 soldiers of the Frontier Corps claimed by the Taliban.

عامر خان نے اپنے ٹی وی شو کا ٹائٹل سونگ اپنی آواز میں ریکارڈ کر وایا

ممبئی…بالی ووڈ کے مسٹر پر فیکٹ عامر خان ایک بار پھر گلو کار بن گئے ہیں جنھوں نے اس سے قبل 1998 میں اپنی فلم غلام کیلئے گانا آتی کیا کھنڈالہ گا کر اس گانے کو ہی مقبول بنادیا تھا۔کئی سال بعدعامر خان نے اپنے مقبول ترین ٹی وی شو Satyamev Jayate کے سیزن ٹو کا ٹائٹل گانا اپنی آواز میں ریکارڈ ...
بھوت کی تھری ڈی واپسی،ہارر فلم بھوت ریٹرنز کا نیا ٹریلر جاری کر دیا گیا
فلم "واکنگ وِد دی اینیمی"کا نیا ٹریلر جاری
'دی امیزنگ اسپائیڈر مین ٹو' نیا ٹریلر جاری
86 ویں آسکر ایوارڈز کی تقریب 2 مارچ کو ہوگی

مارات کی کمپنی کول پاور پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کریگی،جاوید ملک

اسلام آباد…سفیر سرمایہ کاری جاوید ملک نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی کمپنی کول پاور پراجیکٹ میں 200ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ جاوید ملک کا کال ریسورسز کینیڈا کے صدر رچرڈ کوئیسنل کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان انٹرنیشنل بزنس اینڈ انویسٹمنٹ کونسل قائم ...
پاکستان میں سرمایہ کاری کے بہت سے مواقع ہیں، جاوید ملک
چین پاکستان میں توانائی کے شعبے میں30 ارب ڈالر کی سرمایاکاری کریگا
مظفرآباد:مقبوضہ کشمیر کے تاجروں کا چیکنگ کرانے سے انکار
آئندہ 5 سال میں اسلامی بینکوں کی شاخیں دگنی کرنے کا منصوبہ

Disney launches digital movies app


Disney launches digital movies app
 1  0
 
 0  0  9 LOS ANGELES: Disney is launching a digital movies app that allows fans to store movie purchases online and play them back over Apple devices and computers.
The launch of Disney Movies Anywhere coincides with the release of hit film "Frozen" on digital platforms. Users who link the app account to Apple´s iTunes digital store will receive a free copy of "The Incredibles."
The app is built on The Walt Disney Co.´s KeyChest technology, which stores and records consumers´ purchases of digital movies on distant servers. The app also recognizes codes that have enabled digital downloads of Disney movies since 2008.
KeyChest is similar to UltraViolet, a digital locker system supported by a wider range of studios such as Warner Bros., 20th Century Fox, Universal, Sony and Paramount. (AP)

'کورونا وائرس' اونٹوں سے انسانوں میں منتقل ہورہا ہے ،امریکی تحقیق

  
واشنگٹن… ایک تحقیق کے مطابق نظا م تنفس پر حملہ کرکے جان لینے والا 'کورونا وائرس' اونٹوں سے انسانوں میں منتقل ہورہا ہے ۔امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی جائزہ رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ اور یورپ میں اب تک 79 افراد کی موت کا باعث بننے والے 'کورونا وائرس' کی موجودگی اونٹوں میں ثابت ہوگئی ہے، جس سے اس بات کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں کہ یہ بیماری براہ راست اونٹوں سے انسانوں میں منتقل ہورہی ہے۔

Hollywood 'exile' for black actors worries British government


Hollywood 'exile' for black actors worries British government
 0  0
 
 0  0  2 LONDON: Black British actors have been taking Hollywood by storm, with Chiwetel Ejiofor's Oscar nomination for "12 Years a Slave" just the latest example, but at home they still face a lack of roles that has driven some from the country.
The British government is now making efforts to change a situation that has seen the loss of major talents such as David Harewood, famed for his role in the CIA drama "Homeland", David Oyelowo, who starred in the film "The Butler", and Idris Elba, who shot to fame in the cop series "The Wire".
"The media are still interested in ghettoising the presentation of ethnic minority groups within the UK", Femi Oguns, head of the London-based Identity Drama School and Agency Group, which promotes young black talent, told AFP.
He said the civil rights movement in the United States had allowed Black Americans to "force change" but that in Britain "we have adopted a more passive approach".
Oguns added that in British acting school there were quotas but that they led to only around two ethnic minority actors in a group of 30.
The artistic exile that many black British actors now find themselves forced into is a setback for the cause of equal rights, actors say.
"It's hilarious really: we still cannot get through glass ceilings to save our lives back at home. But here we are natural Oscar contenders," said Kwame Kwei-Armah, a British actor and playwright who is based in the United States.
"Nearly everyone you can think of moved away. Of course the same thing happens with white artists but I would argue, not to the same extent", he told Britain's Observer newspaper in a recent interview.
Harewood -- who played the head of the CIA's counterterrorism centre in "Homeland" with as authentically an American accent as his white British co-star Damien Lewis -- said the problem was a lack of parts.
"Unfortunately, there really are not that many roles for authoritative, strong, black characters in this country" said Harewood, who was born in the central English city of Birmingham.
- Blind casting -
Another argument put forward by the British comedian and writer Natalie Haynes is that the long-format US television series give more opportunities than the often historically based British dramas such as Downton Abbey.
According to a study by the Creative Skillset organisation, which deals with the British media industry, nearly 2,000 people of black and Asian origin left the fields of cinema and television between 2009 and 2012, following a rise between 2004 and 2006.
The situation worried British junior culture minister Ed Vaizey so much that he called a round-table on the subject with professionals at the end of January.
"It seems we are quite behind the US on this and we need to ensure that... Britain is reflected as a country of different people," he was quoted as saying in the Sunday Times newspaper.
"Some of our actors, like Idris Elba and David Harewood had to go to the US to get better careers for themselves".
Publicly-funded broadcaster the BBC, which took part in the round-table, agreed that steps had to be taken.
"We know more needs to be done to ensure more people from ethnic minorities are better represented both on and off screen throughout the broadcast industry (...). This is an on-going process but we are making progress", the BBC said in a statement to AFP.
Vaizey meanwhile proposed "blind casting", or castings in which the colour of the actor being sought is not set out. A recent example of this was the casting of the British actress Adelayo Adedayo in the BBC series "Some Girls".
The minister said further meetings on the subject were likely in six months.
But things are already starting to change a little.
The Bafta awards earlier this month honoured three black artists: director Steve McQueen took best film for "12 Years a Slave", Ejiofor won best actor in the same film, while Somali-American Barkhad Abdi took best supporting actor for his portrayal of a Somali pirate in "Captain Phillips".
The Times newspaper said it all: "The Baftas changed colour this year? a transformation that has been a long time coming".

Nevada congressman goes 'undercover' with UPS


Nevada congressman goes 'undercover' with UPS
 2  1
 
 0  0  3 LAS VEGAS: Rep. Steven Horsford has traded his suit and tie for a brown, short-sleeve United Parcel Service (UPS) uniform - not because he's quitting Congress, but because it's a way to make closer contact with his constituents.
The Nevada Democrat went "undercover" Friday morning to help a UPS driver deliver packages to offices in his Las Vegas-area district.
Horsford made the rounds with driver Mark Sidman, operating the hand-held electronic device that tracks parcels along the delivery route.
"I'm Congressman Horsford. I'm here to deliver your package," he said to one recipient.
Horsford told the Las Vegas Review-Journal he wanted to gain a from-the-ground perspective of the working man and woman in his district.
"Sometimes in Washington you get a little disconnected," he said. "I want to make sure I know what people are actually doing each day. It's hard work!"
Horsford, who is up for re-election to a second term this year, joined other drivers in stretching exercises - a daily routine - at a major UPS processing hub before making the rounds.
He appeared to enjoy himself on the route, introducing himself and making small talk with customers.
He also used the opportunity to make a pitch for an increase in the federal minimum wage from $7.25 an hour to $10.10 an hour. UPS pays its drivers an average of $32.50 an hour, he said, a salary that maintains a loyal workforce and a healthy bottom line for the company. Even the company's entry-level loaders make $11 to $12 per hour, he said.
"UPS stands as an example of a company that's already doing great things," he said, adding that his first job was cleaning out kennels at night and he also worked at Pizza Hut.

Earth's crust at least 4.4 bn years old: study


Earth's crust at least 4.4 bn years old: study
 1  0
 
 0  0  8 PARIS: A microscopic grain of Earth's oldest known mineral has been dated to 4.4 billion years ago, shedding light on our planet's infancy and how it came to harbour life, researchers said Sunday.
The finding proves that Earth remained a fiery ball covered in a magma ocean for a shorter period of time after its creation than previously thought.
The Earth is thought to have formed about 4.5 billion years ago, but little is known about its early years, particularly when it became cool enough for the crust to congeal from a sea of molten rock and for liquid water to form.
Some had postulated the cooling would have required as much as 600 million years.
But the discovery in recent decades of zircon crystals, some estimated to be as old as 4.4 billion years, threw that theory into doubt, even though the minerals' age was not conclusively proven. Until now.
The new study confirms that zircon grains harvested from western Australia's Jack Hills region crystallised with the formation of the Earth's crust some 4.374 billion years ago, its authors said.
This was about 160 million years after the creation of the Earth and other planets in our solar system -- "much earlier than previously believed", according to a press statement.
The findings strengthen the theory of a "cool early Earth", with temperatures low enough for liquid water, oceans and a hydrosphere -- the combined mass of water on a planet -- to form not long after the crust during a period known as the Hadean.
"The study reinforces our conclusion that Earth had a hydrosphere before 4.3 billion years ago", and possibly life not long after, said study co-author John Valley, a geochemist from the University of Wisconsin Madison.
The study was conducted with a new technique called atom-probe tomography that could accurately determine the age of the miniscule mineral fragment by measuring individual lead atoms inside it.
Due to its durability, zircon can withstand billions of years of erosion to remain chemically intact, and contains a wealth of geological information.
It is found locked up in younger rocks and even in sand.
This new knowledge about when the Earth cooled "may also help us understand how other habitable planets would form," said Valley. (AFP)

Iranian teacher builds robot to teach prayer


Iranian teacher builds robot to teach prayer
 9  1
 
 0  0  12 TEHRAN: An Iranian schoolteacher has innovated an amusing way of encouraging young children to say their daily prayers — robotics.
Akbar Rezaie, 27, attended private robotics classes and learned to develop and assemble customized humanoid robots.
He teaches the Quran to boys and girls at Alborz elementary school in the town of Varamin, 35 kilometers (20 miles) southeast of Tehran.
A Western dancing and singing doll first sparked in his mind the idea of building a local robot to present religious practice to his students.
"Once I was at a family gathering where there was a little girl playing with a doll that could dance and sing. I saw her watching the doll passionately and it made me contemplate on a making a device that can be used for both religious and entertaining purposes." He told AP Television.
He built the robot at home with basic tools and gave it the designation "Veldan," a Quranic term meaning: "Youth of Heaven."
Veldan is a humanoid robot constructed using an educational kit from the Korean robot manufacturer Robotis Bioloid.
By applying some mechanical modifications such as adding two extra engines, Akbar managed to let the robot perform praying movements, such as prostration, more easily.
"It was so exciting to me to see a robot pray. I have decided to always say my prayers too," said Narges Tajik, a third grader at Alborz School said.
He describes the robot as an educational assistance to teachers and believes that it has so far been successful in attracting students and should be mass-produced.
"As you see the children´s reaction in their faces, you realize how interesting it is to them to see how the science of robotics has been beautifully used for a religious purpose and I am sure it will be greatly effective in teaching them how to pray," he said.
He has formally registered the robot´s invention patent and its intellectual rights at Iran´s State Organization for Registration of Deeds and Properties, a body in charge of recognizing inventions. (AP)

COAS, PM discuss strategy against Taliban


COAS, PM discuss strategy against Taliban
   
 
      ISLAMABAD: Chief of the Army Staff General Raheel Sharif called on Prime Minister Nawaz Sharif at the PM House in Islamabad.
The COAS and the PM discussed the present security situation and discussed the government’s strategy against the Taliban. The two also discussed the national security policy that was presented before the national assembly earlier in the day.
Following the one on one meeting between the Prime Minister and the Army Chief, Defence Minister Khwaja Asif, Interior Minister Chaudhry Nisar, DG ISI Lt. General Zaheer-ul-Islam and the DGMO Lt. General Amir Riaz also joined the discussion.
According to sources in the government, similar discussions and briefings have been taking place between the military establishment and the civilian government over the last few days.
During such briefings it has been shared, that in case a full blown operation is launched against the militants, the army can clear the area within 4 to 6 weeks, however after the operation is complete the army will have to remain in Waziristan - as it had post-operation in Swat.

لاہور ہائیکورٹ نے پولیس کو ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز پر چھاپے مارنے سے روک دیا

ہوٹلز اور گیسٹ ہاوٴسز میں اشتہاریوں کے نام پر چھاپے غیرقانونی ہیں, ایس پی سول لائنز کا اعتراف فوٹو: فائل
لاہور: ہائی کورٹ نے پولیس کو اشتہاریوں کی گرفتاری کےلئے ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز پر غیرقانونی چھاپے مارنے سے روک دیا۔
ایکپسریس نیوز کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں ہوٹلز اور گیسٹ ہاوٴسز میں پولیس کے غیر قانونی چھاپوں کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ نجی گیسٹ ہاوٴس کے مالک ظفر متین نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ پولیس نے اشتہاریوں کو پکڑنے کے بہانے ان کے گیسٹ ہاؤس پر بغیر کسی وارنٹ چھاپہ مارا اور گیسٹ ہاوٴس میں قیام پذیر خواتین اور مردوں کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئی اور ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس منظور ملک نے ہوٹلز اور گیسٹ ہاوٴسز میں چھاپوں پر پولیس کی سخت سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پولیس کس قانون کے تحت اشتہاریوں کے نام پر ہوٹلز اور گیسٹ ہاوٴسز پر چھاپے مارتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کی نجی زندگی کوسکون میں رہنے دیاجائے، دروازے توڑ کر چاردیواری کے اندر گھسنا کہاں کاقانون ہے، پولیس کی مرضی کے بغیر کوئی جرم نہیں ہوتا۔
اس موقع پر ایس پی سول لائنز نے عدالت میں اعتراف کیا کہ ہوٹلز اور گیسٹ ہاوٴسز میں اشتہاریوں کے نام پر چھاپے غیرقانونی ہیں۔ جس پر عدالت نے ہدایت کی کہ پولیس اس قسم کی غیرقانونی حرکتیں فوری بند کی جائیں اور شہریوں کی نجی زندگی کو سکون میں رہنے دیاجائے۔

طالبان کو چند گزارشات پیش کی ہیں امید ہے کہ مثبت جواب آئے گا، مولانا یوسف شاہ

طالبان نے گزارشات پر جواب دینے کے لئے تھوڑا وقت مانگا ہے، مولانا یوسف شاہ۔ فوٹو؛ فائل
پشاور: طالبان کمیٹی کے کوآرڈینیٹر مولانا یوسف شاہ کا کہنا ہے کہ طالبان شوری کے سامنے چند گزارشات رکھی ہیں امید ہے کہ مثبت جواب آئے گا۔
ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے مولانا یوسف شاہ کا کہنا تھا کہ طالبان کمیٹی کے رکن مولانا سمیع الحق کا طالبان شوری سے رابطہ ہوا ہے جس میں انھیں کچھ گزارشات پیش کی گئی ہیں، امید ہے کہ طالبان کی جانب سے مثبت جواب آئے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم سے کوئی بات مخفی نہیں رکھی جائے گی، طالبان نے گزارشات پر جواب دینے کے لئے تھوڑا وقت مانگا ہے، طالبان شوری کا جواب آنے کے بعد قوم کو آگاہ کر دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ طالبان کی جانب سے 23 ایف سی اہلکاروں کے قتل کے بعد سے حکومت اور طالبان کی جانب سے مذاکرات کے لئے قائم کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔

Karachi law, order case: SC calls for land allotment policy report in 15 days



KARACHI: Supreme Court calling for the report regarding the Karachi land allotment policy enquired from the SSP anti-encroachment cell how many FIR have been registered thus far against the land grabbers, Geo News reported.

During the hearing at the Karachi Registry here, Justice Amir Hani Muslim enquired where was the senior member Board of Revenue, Lala Fazlur Rahman?

SSP anti-encroachment cell Arif Aziz replied that he could not appear in the court, as he was sick.

The court expressed its annoyance over Fazlur Rahman’s absence. Justice Amir Hani further enquired from SSP anti-encroachment cell is it the policy that only a sick person could become senior member Board of Revenue? And said that whoever falls seriously ill made the senior member Board of Revenue.

The court further asked SSP anti-encroachment cell how many FIR have been registered against the land grabbers thus far?

SSP anti-encroachment cell replied that he hasn’t the power to register the FIR.

The larger bench of the Supreme Court expressing its extreme displeasure over his ignorance of the law enquired from the SSP have your ever read the law?

Oil prices up ahead of US stockpiles report



SINGAPORE: Oil prices edged higher in Asian trade Wednesday as dealers await the latest US crude stockpiles data for clues about demand in the world´s biggest economy at the tail-end of a harsh winter.

New York´s main contract, West Texas Intermediate for April delivery, rose three cents to $101.86 in mid-morning trade. Brent North Sea crude for April was up five cents at $109.56

Afghan mission: US planning full troop pullout, says Obama

WASHINGTON:  President Barack Obama told his Afghan counterpart Hamid Karzai on Tuesday he is now planning a full US troop withdrawal, but did not rule out a deal on a post-2014 mission with the next Kabul government.
Obama told Karzai by telephone that, since the Afghan leader had refused to sign a Bilateral Security Agreement (BSA) with Washington, the Pentagon has little option but to plan for a full pullout, the White House said.
“President Obama told President Karzai that because he has demonstrated that it is unlikely that he will sign the BSA, the United States is moving forward with additional contingency planning,” the statement said.
“Specifically, President Obama has asked the Pentagon to ensure that it has adequate plans in place to accomplish an orderly withdrawal by the end of the year should the United States not keep any troops in Afghanistan after 2014.”
The White House has previously warned that Karzai’s intransigence on a deal painstakingly negotiated last year meant that it must start the complicated process of planning a full withdrawal.
Though Karzai has refused to sign the BSA, which offers legal protections for US troops and defines a post-2014 Nato training and anti-terror mission, some of the candidates in April’s Afghan elections have indicated they would sign it.
The statement said that Obama was reserving the “possibility of concluding a BSA with Afghanistan later this year”, should he find a willing partner in the Afghan government.
It was the most concrete sign yet that Washington may be willing to wait out the Afghan electoral process before making a final decision on Afghanistan’s future.
However, the statement warned “the longer we go without a BSA, the more challenging it will be to plan and execute any US mission”, the White House warned. “Furthermore, the longer we go without a BSA, the more likely it will be that any post-2014 US mission will be smaller in scale and ambition.”
The statement clearly implied that Karzai’s behaviour, and his desire to wield authority in the dying months of his mandate would harm his nation’s security long into the future.
…جویریہ صدیق…
پاکستان میں خواتین بہت سے مسائل کا شکار ہیں جن میں کم عمری کی شادی،صنفی امتیاز،غذائی قلت،تیزاب گردی،طبی سہولیات کا فقدان،دوران زچگی اموات، گھریلو تشدد،غیرت کے نام پر قتل،ریپ، ملازمت کے کم مواقع اور تنگ نظری شامل ہیں۔ زیادہ تر افراد بیٹی کی پیدایش پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔بیٹے کی غذائی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں بیٹیوں کو مناسب خوراک بھی مل نہیں پاتی ، اس ہی وجہ سے یہ بچیاں جب شادی کے بعد امید سے ہوتی ہیں تو دوران حمل طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوجا تی اور سسرال والوں کا غیر مناسب رویہ،حفظان صحت کے اصولوں پر عمل نا کرنا،غربت، غیر تربیت یافتہ دایاں، طبی سہولیات کا فقدان بھی ان کی جان کو لاتعداد خطرے لاحق کردیتا ہے۔
پاکستان میں دوران زچگی خواتین کی اموات کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہوگی ہے ہر سال 25 سے 30ہزار خواتین زچگی میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ خوراک کی کمی اور مردوں کی لاپروایی سے ماں اور بچے کی زندگی کو بہت سے خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور ماوں کے ساتھ ساتھ روزانہ11 سوسے زائد بچے بھی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ سال 2013 میں56 خواتین کو صرف بیٹی پیدا کرنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
پاکستان میں جو خواتین پڑھنے لکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن جب وہ ملازمت کے حصول کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں تو سواے تعلیم اور صحت کے شعبے کہ ان سے باقی شعبوں میں ملازمت اور تنخواوں میں اضافے پر امتیاز برتا جاتا ہے۔ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق پاکستان، چاڈ، یمن اور چلی صنفی امتیاز کے حوالے سے بدترین ملکوں میں شامل ہیں۔خواتین کو ملازمت کے حصول سے لیے کر ملازمت کرنے تک مختلف النوع مشکلات اوراذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،جس کا اظہار گھورنے، پریشان کرنے ،تعاقب کرنے غیر شائستہ اشارے ، مذاق اور جنسی حملے کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے اس سے خواتین ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور اپنا اعتماد کھو بیٹھتی ہیں۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں قرآن سے شادی،ونی اورکاروکاری جیسی رسوم کی وجہ سے بھی استحصال کا شکار ہیں اور ان خواتین کی زندگی کی ڈور صرف جرگے اور پنچایت کے ہاتھ میں ہے۔صرف2013 میں 840 خواتین غیریت کے نام پر قتل کردی گئیں۔
2013 میں344 گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔تیزاب گردی میں دو ہزار تیرہ سے اب تک نوے لڑکیوں کے چہرے تیزاب سے جھلسا دیے گئے اور کسی کے مجرم کو اب تک سزا نہیں ہوئی ہے۔
گھریلو تشدد بھی ایک ایسا دیمک ہے جو عورتوں کو کھا رہا ہے اور گھریلو تشدد کے بیشتر واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے جو پچھلے سال رپورٹ ہویے ان کی تعداد پانچ ہزار کے قریب تھی۔تشدد کے وقعات میں پچھلے سال سے اب تک بہتر خواتین کو زندہ جلا کر مار دیا گیا۔
سیاست اور قانون سازی کی بات ہو تو وفاقی کابینہ یا صوبایی خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے خواتین کو نا ہی دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں جنرل نشستوں پر خاطر خواہ کامیابی ہویہی اور نا ہی مخصوص نشستوں پر میرٹ کا خیال رکھا گیا۔ ریاست کے چار اہم ستونوں کے اعلیٰ عہدوں پر کوئی بھی خاتون فائز نہیں۔
اگرچہ خواتین معاشرے کی معاشی ترقی کے لیے حیات افزا کردار ادا کرتی ہیں لیکن ان کے اس کردار کو شاذونادر ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کی طرف سے عورت کو گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خصوصی سہولیات فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھا ئے گئے ہیں جبکہ کہ ایک بڑی اکثریت بحیثیت عورت اپنے بنیادی حقوق پر سمجھوتہ کیے ہوئے ہیں۔
خواتین کے ساتھ پاکستان میں جاری ناروا سلوک کو دیکھتے ہوئے ان کے حق میں مخلتف اقدامات کی فوری ضرورت ہے، جن میں خواتین دوست قانوں سازی کی جائے،انہیں ملازمتوں میں مردوں کے برابر مواقع ملنے چاہئیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ان کی تقرریاں کی جائیں۔ خواتین پر تشدد کرنے والے افراد کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے اور سب سے بڑھ کر معاشرے میں والدین کو اولاد کی تربیت کرتے وقت خواتین کا احترام کرنا ضرور سکھایا جائے۔ - See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9547#sthash.dTccGLb2.dpuf
…جویریہ صدیق…
پاکستان میں خواتین بہت سے مسائل کا شکار ہیں جن میں کم عمری کی شادی،صنفی امتیاز،غذائی قلت،تیزاب گردی،طبی سہولیات کا فقدان،دوران زچگی اموات، گھریلو تشدد،غیرت کے نام پر قتل،ریپ، ملازمت کے کم مواقع اور تنگ نظری شامل ہیں۔ زیادہ تر افراد بیٹی کی پیدایش پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔بیٹے کی غذائی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں بیٹیوں کو مناسب خوراک بھی مل نہیں پاتی ، اس ہی وجہ سے یہ بچیاں جب شادی کے بعد امید سے ہوتی ہیں تو دوران حمل طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوجا تی اور سسرال والوں کا غیر مناسب رویہ،حفظان صحت کے اصولوں پر عمل نا کرنا،غربت، غیر تربیت یافتہ دایاں، طبی سہولیات کا فقدان بھی ان کی جان کو لاتعداد خطرے لاحق کردیتا ہے۔
پاکستان میں دوران زچگی خواتین کی اموات کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہوگی ہے ہر سال 25 سے 30ہزار خواتین زچگی میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ خوراک کی کمی اور مردوں کی لاپروایی سے ماں اور بچے کی زندگی کو بہت سے خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور ماوں کے ساتھ ساتھ روزانہ11 سوسے زائد بچے بھی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ سال 2013 میں56 خواتین کو صرف بیٹی پیدا کرنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
پاکستان میں جو خواتین پڑھنے لکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن جب وہ ملازمت کے حصول کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں تو سواے تعلیم اور صحت کے شعبے کہ ان سے باقی شعبوں میں ملازمت اور تنخواوں میں اضافے پر امتیاز برتا جاتا ہے۔ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق پاکستان، چاڈ، یمن اور چلی صنفی امتیاز کے حوالے سے بدترین ملکوں میں شامل ہیں۔خواتین کو ملازمت کے حصول سے لیے کر ملازمت کرنے تک مختلف النوع مشکلات اوراذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،جس کا اظہار گھورنے، پریشان کرنے ،تعاقب کرنے غیر شائستہ اشارے ، مذاق اور جنسی حملے کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے اس سے خواتین ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور اپنا اعتماد کھو بیٹھتی ہیں۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں قرآن سے شادی،ونی اورکاروکاری جیسی رسوم کی وجہ سے بھی استحصال کا شکار ہیں اور ان خواتین کی زندگی کی ڈور صرف جرگے اور پنچایت کے ہاتھ میں ہے۔صرف2013 میں 840 خواتین غیریت کے نام پر قتل کردی گئیں۔
2013 میں344 گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔تیزاب گردی میں دو ہزار تیرہ سے اب تک نوے لڑکیوں کے چہرے تیزاب سے جھلسا دیے گئے اور کسی کے مجرم کو اب تک سزا نہیں ہوئی ہے۔
گھریلو تشدد بھی ایک ایسا دیمک ہے جو عورتوں کو کھا رہا ہے اور گھریلو تشدد کے بیشتر واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے جو پچھلے سال رپورٹ ہویے ان کی تعداد پانچ ہزار کے قریب تھی۔تشدد کے وقعات میں پچھلے سال سے اب تک بہتر خواتین کو زندہ جلا کر مار دیا گیا۔
سیاست اور قانون سازی کی بات ہو تو وفاقی کابینہ یا صوبایی خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے خواتین کو نا ہی دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں جنرل نشستوں پر خاطر خواہ کامیابی ہویہی اور نا ہی مخصوص نشستوں پر میرٹ کا خیال رکھا گیا۔ ریاست کے چار اہم ستونوں کے اعلیٰ عہدوں پر کوئی بھی خاتون فائز نہیں۔
اگرچہ خواتین معاشرے کی معاشی ترقی کے لیے حیات افزا کردار ادا کرتی ہیں لیکن ان کے اس کردار کو شاذونادر ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کی طرف سے عورت کو گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خصوصی سہولیات فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھا ئے گئے ہیں جبکہ کہ ایک بڑی اکثریت بحیثیت عورت اپنے بنیادی حقوق پر سمجھوتہ کیے ہوئے ہیں۔
خواتین کے ساتھ پاکستان میں جاری ناروا سلوک کو دیکھتے ہوئے ان کے حق میں مخلتف اقدامات کی فوری ضرورت ہے، جن میں خواتین دوست قانوں سازی کی جائے،انہیں ملازمتوں میں مردوں کے برابر مواقع ملنے چاہئیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ان کی تقرریاں کی جائیں۔ خواتین پر تشدد کرنے والے افراد کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے اور سب سے بڑھ کر معاشرے میں والدین کو اولاد کی تربیت کرتے وقت خواتین کا احترام کرنا ضرور سکھایا جائے۔ - See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9547#sthash.dTccGLb2.dpuf
…جویریہ صدیق…
پاکستان میں خواتین بہت سے مسائل کا شکار ہیں جن میں کم عمری کی شادی،صنفی امتیاز،غذائی قلت،تیزاب گردی،طبی سہولیات کا فقدان،دوران زچگی اموات، گھریلو تشدد،غیرت کے نام پر قتل،ریپ، ملازمت کے کم مواقع اور تنگ نظری شامل ہیں۔ زیادہ تر افراد بیٹی کی پیدایش پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔بیٹے کی غذائی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں بیٹیوں کو مناسب خوراک بھی مل نہیں پاتی ، اس ہی وجہ سے یہ بچیاں جب شادی کے بعد امید سے ہوتی ہیں تو دوران حمل طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوجا تی اور سسرال والوں کا غیر مناسب رویہ،حفظان صحت کے اصولوں پر عمل نا کرنا،غربت، غیر تربیت یافتہ دایاں، طبی سہولیات کا فقدان بھی ان کی جان کو لاتعداد خطرے لاحق کردیتا ہے۔
پاکستان میں دوران زچگی خواتین کی اموات کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہوگی ہے ہر سال 25 سے 30ہزار خواتین زچگی میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ خوراک کی کمی اور مردوں کی لاپروایی سے ماں اور بچے کی زندگی کو بہت سے خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور ماوں کے ساتھ ساتھ روزانہ11 سوسے زائد بچے بھی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ سال 2013 میں56 خواتین کو صرف بیٹی پیدا کرنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
پاکستان میں جو خواتین پڑھنے لکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن جب وہ ملازمت کے حصول کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں تو سواے تعلیم اور صحت کے شعبے کہ ان سے باقی شعبوں میں ملازمت اور تنخواوں میں اضافے پر امتیاز برتا جاتا ہے۔ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق پاکستان، چاڈ، یمن اور چلی صنفی امتیاز کے حوالے سے بدترین ملکوں میں شامل ہیں۔خواتین کو ملازمت کے حصول سے لیے کر ملازمت کرنے تک مختلف النوع مشکلات اوراذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،جس کا اظہار گھورنے، پریشان کرنے ،تعاقب کرنے غیر شائستہ اشارے ، مذاق اور جنسی حملے کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے اس سے خواتین ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور اپنا اعتماد کھو بیٹھتی ہیں۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں قرآن سے شادی،ونی اورکاروکاری جیسی رسوم کی وجہ سے بھی استحصال کا شکار ہیں اور ان خواتین کی زندگی کی ڈور صرف جرگے اور پنچایت کے ہاتھ میں ہے۔صرف2013 میں 840 خواتین غیریت کے نام پر قتل کردی گئیں۔
2013 میں344 گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔تیزاب گردی میں دو ہزار تیرہ سے اب تک نوے لڑکیوں کے چہرے تیزاب سے جھلسا دیے گئے اور کسی کے مجرم کو اب تک سزا نہیں ہوئی ہے۔
گھریلو تشدد بھی ایک ایسا دیمک ہے جو عورتوں کو کھا رہا ہے اور گھریلو تشدد کے بیشتر واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے جو پچھلے سال رپورٹ ہویے ان کی تعداد پانچ ہزار کے قریب تھی۔تشدد کے وقعات میں پچھلے سال سے اب تک بہتر خواتین کو زندہ جلا کر مار دیا گیا۔
سیاست اور قانون سازی کی بات ہو تو وفاقی کابینہ یا صوبایی خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے خواتین کو نا ہی دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں جنرل نشستوں پر خاطر خواہ کامیابی ہویہی اور نا ہی مخصوص نشستوں پر میرٹ کا خیال رکھا گیا۔ ریاست کے چار اہم ستونوں کے اعلیٰ عہدوں پر کوئی بھی خاتون فائز نہیں۔
اگرچہ خواتین معاشرے کی معاشی ترقی کے لیے حیات افزا کردار ادا کرتی ہیں لیکن ان کے اس کردار کو شاذونادر ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کی طرف سے عورت کو گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خصوصی سہولیات فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھا ئے گئے ہیں جبکہ کہ ایک بڑی اکثریت بحیثیت عورت اپنے بنیادی حقوق پر سمجھوتہ کیے ہوئے ہیں۔
خواتین کے ساتھ پاکستان میں جاری ناروا سلوک کو دیکھتے ہوئے ان کے حق میں مخلتف اقدامات کی فوری ضرورت ہے، جن میں خواتین دوست قانوں سازی کی جائے،انہیں ملازمتوں میں مردوں کے برابر مواقع ملنے چاہئیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ان کی تقرریاں کی جائیں۔ خواتین پر تشدد کرنے والے افراد کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے اور سب سے بڑھ کر معاشرے میں والدین کو اولاد کی تربیت کرتے وقت خواتین کا احترام کرنا ضرور سکھایا جائے۔ - See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9547#sthash.dTccGLb2.dpuf
…جویریہ صدیق…
پاکستان میں خواتین بہت سے مسائل کا شکار ہیں جن میں کم عمری کی شادی،صنفی امتیاز،غذائی قلت،تیزاب گردی،طبی سہولیات کا فقدان،دوران زچگی اموات، گھریلو تشدد،غیرت کے نام پر قتل،ریپ، ملازمت کے کم مواقع اور تنگ نظری شامل ہیں۔ زیادہ تر افراد بیٹی کی پیدایش پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔بیٹے کی غذائی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں بیٹیوں کو مناسب خوراک بھی مل نہیں پاتی ، اس ہی وجہ سے یہ بچیاں جب شادی کے بعد امید سے ہوتی ہیں تو دوران حمل طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوجا تی اور سسرال والوں کا غیر مناسب رویہ،حفظان صحت کے اصولوں پر عمل نا کرنا،غربت، غیر تربیت یافتہ دایاں، طبی سہولیات کا فقدان بھی ان کی جان کو لاتعداد خطرے لاحق کردیتا ہے۔
پاکستان میں دوران زچگی خواتین کی اموات کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہوگی ہے ہر سال 25 سے 30ہزار خواتین زچگی میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ خوراک کی کمی اور مردوں کی لاپروایی سے ماں اور بچے کی زندگی کو بہت سے خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور ماوں کے ساتھ ساتھ روزانہ11 سوسے زائد بچے بھی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ سال 2013 میں56 خواتین کو صرف بیٹی پیدا کرنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
پاکستان میں جو خواتین پڑھنے لکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن جب وہ ملازمت کے حصول کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں تو سواے تعلیم اور صحت کے شعبے کہ ان سے باقی شعبوں میں ملازمت اور تنخواوں میں اضافے پر امتیاز برتا جاتا ہے۔ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق پاکستان، چاڈ، یمن اور چلی صنفی امتیاز کے حوالے سے بدترین ملکوں میں شامل ہیں۔خواتین کو ملازمت کے حصول سے لیے کر ملازمت کرنے تک مختلف النوع مشکلات اوراذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،جس کا اظہار گھورنے، پریشان کرنے ،تعاقب کرنے غیر شائستہ اشارے ، مذاق اور جنسی حملے کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے اس سے خواتین ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور اپنا اعتماد کھو بیٹھتی ہیں۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں قرآن سے شادی،ونی اورکاروکاری جیسی رسوم کی وجہ سے بھی استحصال کا شکار ہیں اور ان خواتین کی زندگی کی ڈور صرف جرگے اور پنچایت کے ہاتھ میں ہے۔صرف2013 میں 840 خواتین غیریت کے نام پر قتل کردی گئیں۔
2013 میں344 گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔تیزاب گردی میں دو ہزار تیرہ سے اب تک نوے لڑکیوں کے چہرے تیزاب سے جھلسا دیے گئے اور کسی کے مجرم کو اب تک سزا نہیں ہوئی ہے۔
گھریلو تشدد بھی ایک ایسا دیمک ہے جو عورتوں کو کھا رہا ہے اور گھریلو تشدد کے بیشتر واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے جو پچھلے سال رپورٹ ہویے ان کی تعداد پانچ ہزار کے قریب تھی۔تشدد کے وقعات میں پچھلے سال سے اب تک بہتر خواتین کو زندہ جلا کر مار دیا گیا۔
سیاست اور قانون سازی کی بات ہو تو وفاقی کابینہ یا صوبایی خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے خواتین کو نا ہی دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں جنرل نشستوں پر خاطر خواہ کامیابی ہویہی اور نا ہی مخصوص نشستوں پر میرٹ کا خیال رکھا گیا۔ ریاست کے چار اہم ستونوں کے اعلیٰ عہدوں پر کوئی بھی خاتون فائز نہیں۔
اگرچہ خواتین معاشرے کی معاشی ترقی کے لیے حیات افزا کردار ادا کرتی ہیں لیکن ان کے اس کردار کو شاذونادر ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کی طرف سے عورت کو گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی میں خصوصی سہولیات فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھا ئے گئے ہیں جبکہ کہ ایک بڑی اکثریت بحیثیت عورت اپنے بنیادی حقوق پر سمجھوتہ کیے ہوئے ہیں۔
خواتین کے ساتھ پاکستان میں جاری ناروا سلوک کو دیکھتے ہوئے ان کے حق میں مخلتف اقدامات کی فوری ضرورت ہے، جن میں خواتین دوست قانوں سازی کی جائے،انہیں ملازمتوں میں مردوں کے برابر مواقع ملنے چاہئیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ان کی تقرریاں کی جائیں۔ خواتین پر تشدد کرنے والے افراد کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے اور سب سے بڑھ کر معاشرے میں والدین کو اولاد کی تربیت کرتے وقت خواتین کا احترام کرنا ضرور سکھایا جائے۔ - See more at: http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=9547#sthash.dTccGLb2.dpuf